کتاب: نبی مصطفٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع سیرت - صفحہ 100
س:۱۱۰… امام المجاہدین نبی معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت کے دو واقعات بیان کریں ؟ ج:۱۱۰… سیّد الجنۃ والبشر امام الانبیاء والرسل محمد النبی الکریم ورؤف رحیم بالمؤمنین صلی اللہ علیہ وسلم جہاں انتہائی شفیق، رحمدل اور انس و الفت کا پیکر تھے وہاں آپ نہایت دلیر اور شجاع بھی تھے کہ شاید ہی دنیا میں کوئی فرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنا بہادر ہو۔ اس پر واقعات بہت ہیں۔ ہم صرف دو واقعات پر اکتفا کرتے ہیں۔ (۱) شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔ آپؐ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتے گئے۔ پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی۔ بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے ہیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب زور کا رَن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اُٹھتے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا، لوگ شور کی طرف دوڑے تو راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے۔ آپؐ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ(کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے)چکے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرمارہے تھے:’’ ڈرو نہیں، ڈرو نہیں(کوئی خطرہ نہیں)۔ ‘‘ (۲) سیّدنا البراء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُن سے بنوقیس کے ایک شخص نے کہا:تم لوگ کیا غزوۂ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انھوں نے کہا:بے شک ایسا ہی ہوا تھا مگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود نہیں بھاگے تھے۔ ہوا یوں کہ:بنو ھوازن کے لوگ کہ جن سے مقابلہ تھا، بڑے تیر انداز لوگ تھے۔(اور ان کی