کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 96
بتانا کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے۔پس اللہ کی قسم!اگر تیرے ذریعے سے ایک آدمی کو اللہ ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے(مال غنیمت کے)سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (۱۰۷)عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: دَعَا النَّبِيُّ ا فَاطِمَۃَ ابْنَتَہٗ فِيْ شَکْوَاہُ الَّذِيْ قُبِضَ فِیْہِ فَسَارَّھَا بِشَيْئٍ فَبَکَتْ، ثُمَّ دَعَاھَا فَسَارَّھَا فَضَحِکَتْ قَالَتْ:فَسَأَلْتُھَا عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَتْ:سَارَّنِي النَّبِيُّ ا فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّہٗ یُقْبَضُ فِيْ وَجَعِہِ الَّذِيْ تُوُفِّيَ فِیْہِ فَبَکَیْتُ، ثُمَّ سَارَّنِيْ فَأَخْبَرَنِيْ أَنِّيْ أَوَّلُ أَھْلِ بَیْتِہٖ أَتْبَعُہٗ فَضَحِکْتُ۔صحیح[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنی اس بیماری میں بلایا جس میں آپ فوت ہوئے تھے۔پھر ان کو(لوگوں سے خفیہ)ایک بات بتائی تو وہ رونے لگیں۔پھر ان کو بلا کر(دوسری بات بتائی جسے کسی نے نہیں سنا)تو وہ ہنسے لگیں۔ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے)کہا: پس میں نے(آپ کی وفات کے بعد)اس سے ان(دو راز والی)باتوں کے بارے میں پوچھا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے(پہلی)راز کی بات بتائی کہ وہ اس بیماری میں فوت ہوجائیں گے تو میں رونے لگی۔پھر آپ نے مجھے(دوسری)راز کی بات بتائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں(فوت ہو کر)آپ سے جاملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔ (۱۰۸)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقُوْلُ:(( إِنَّ خَیْرَ التَّابِعِیْنَ رَجُلٌ یُقَالُ لَہٗ أُوَیْسٌ، وَلَہٗ وَالِدَۃٌ، وَکَانَ بِہٖ بَیَاضٌ فَمُرُوْہُ فَلْیَسْتَغْفِرْلَکُمْ))۔صحیح[2] سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بے شک تابعین میں سے بہتر وہ آدمی ہے جسے اویس(قرنی)کہتے ہیں اس کی والدہ(زندہ)ہے اور اس کے جسم میں سفیدی ہے۔پس اس سے درخواست کرنا کہ وہ تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ (۱۰۹)عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِيْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ، وَھُوَ فِيْ قُبَّۃٍ أَدَمٍ فَقَالَ:(( اعْدُدْ سِتًّا بَیْنَ یَدَيِ السَّاعَۃِ:مَوْتِيْ، ثُمَّ فَتْحُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مُوْتَانٌ یَأْخُذُ فِیْکُمْ کَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَۃُ الْمَالِ حَتّٰی یُعْطَی الرَّجُلُ مِائَۃَ دِیْنَارٍ فَیَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَۃٌ لَا یَبْقٰی[3]
[1] صحیح البخاري، المناقب باب علامات النبوۃ فی الإسلام: ۳۶۲۵، ۳۶۲۶، مسلم:۲۴۵۰۔ [2] صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ باب من فضائل أویس:۲۵۴۲۔ [3] صحیح البخاري، الجزیۃ، باب ما یحذر من الغدر: ۳۱۷۶۔