کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 93
حَدِیْقَتِھَا کَمْ بَلَغَ ثَمَرُھَا؟ فَقَالَتْ:عَشَرَۃُ أَوْسُقٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :((إِنِّيْ مُسْرِعٌ فَمَنْ شَائَ مِنْکُمْ فَلْیُسْرِعْ مَعِيَ، وَمَنْ شَائَ فَلْیَمْکُثْ))فَخَرَجْنَا حَتّٰی أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَقَالَ:(( ھٰذِہٖ طَابَۃُ، وَھٰذَا أُحُدٌ، وَھُوَ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہٗ))۔صحیح سیدنا ابوحمیدالساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں حاضر ہوئے۔ہم وادی القریٰ(بستیوں والی وادی)میں ایک عورت کے باغ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس(کے پھل)کا اندازہ لگاؤ تو ہم نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگایا کہ(اس کا پھل)دس اوسق(چھ سو صاع)ہے اور فرمایا: ہمارے واپس آنے تک اسے(تولنے کے بعد)یاد رکھنا(کہ کتنا وزن ہے)اورہم تبوک چلے گئے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات تمپر تیزہوا چلے گی۔پس کوئی آدمی کھڑا نہ ہو۔جس کا اونٹ ہے وہ اس کی رسی باندھ لے۔پھر تیز ہوا چلی تو ایک آدمی کھڑا ہوگیا۔پس اسے ہوا نے اٹھا کر طی کے دوپہاڑوں کے درمیان پھینک دیا۔اور ایلہ کے(عیسائی)حاکم ابن العلماء کا ایلچی ایک خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر تحفہ دیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خط بھیجا اور کپڑے کا تحفہ دیا۔پھر ہم واپس لوٹے حتیٰ کہ وادی القریٰ پہنچے۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے باغ کے بارے میں پوچھاکہ اس کا کتنا پھل ہوا تھا؟ اس نے کہا: دس اوسق(چھ سو صاع)پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیز جانا چاہتا ہوں۔جس کی مرضی ہو تیز جائے اور جس کی مرضی ہو ٹھہر جائے پھر ہم(وہاں سے)نکلے حتیٰ کہ مدینہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ طابہ(پاک)ہے اور یہ احد(کا پہاڑ)ہے یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (۱۰۳)عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ مَوْلَی الْمَھْرِيِّ أَنَّہٗ أَتٰی أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللّٰہ عنہ فَقَالَ أَبُوْسَعِیْدٍ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ا قَالَ الْمَھْرِيُّ أَظُنُّ أَنَّہٗ قَالَ ـ حَتّٰی قَدِمْنَا عُسْفَانَ، فَأَقَامَ بِہَا لَیَالِيَ، فَقَالَ النَّاسُ: مَا نَحْنُ ھٰھُنَا فِيْ شَيْئٍ وَإِنَّ عِیَالَنَا لَخُلُوْفٌ مَا نَأْمَنُ عَلَیْھِمْ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِيَّ ا فَقَالَ :(( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ مَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ إِلاَّ عَلَیْھَا مَلَکَانِ یَحْرُسَانِھَا حَتّٰی تَقْدَمُوْا إِلَیْھَا))۔ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:(( ارْتَحِلُوْا))۔فَارْتَحَلْنَا وَأَقْبَلْنَا إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَوَالَّذِيْ نَحْلِفُ بِہٖ ـ أَوْیُحْلَفُ بِہٖ شَکَّ ابْنُ حَمَّادٍ ـ مَا وَضَعْنَا رِحَالَنَا حِیْنَ دَخَلْنَا الْمَدِیْنَۃَ، حَتّٰی أَغَارَ عَلَیْنَا بَنُوْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ غَطْفَانَ وَمَا یَھِیْجُھُمْ قَبْلَ ذٰلِکَ شَيْئٌ۔صحیح[1]
[1] صحیح مسلم، الحج باب الترغیب في سکنی المدینۃ:۱۳۷۴ مطولاً۔