کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 79
پھر سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان میں سے ہوں؟ فرمایا: ’’ہاں،، پھر ایک دوسرا کھڑا ہوگیا اور کہا: کیا میں(بھی)ان میں سے ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عکاشہ تجھ پر سبقت لے گئے ہیں۔ (۸۲)عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:(( کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ رَجُلٌ یُصَلِّيْ فَقَرَأَ قِرَائَ ۃً أَنْکَرْتُھَا عَلَیْہِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَائَ ۃً سِوٰی قِرَائَ ۃِ صَاحِبِہٖ، فَلَمَّا قَضَیْنَا الصَّلَاۃَ دَخَلْنَا جَمِیْعًا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔فَقُلْتُ:إِنَّ ھٰذَا قَرَأَ قِرَائَ ۃً أَنْکَرْتُھَا عَلَیْہِ، وَدَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ سِوٰی قِرَائَ ۃِ صَاحِبِہٖ۔فَأَمَرَھُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ فَقَرَآ، فَحَسَّنَ النَّبِيُّ شَأْنَہُمَا فَسَقَطَ فِيْ نَفْسِيْ مِنَ التَّکْذِیْبِ وَلَا إِذْ کُنْتُ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔فَلَمَّا رَآنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَا قَدْ غَشِیَنِيْ؛ ضَرَبَ فِيْ صَدْرِيْ فَفِضْتُ عَرَقًا، وَکَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَی اللّٰہِ فَرَقًا۔فَقَالَ لِيْ:(( یَا أُبَيُّ أُرْسِلَ إِلَيَّ أَنِ اقْرَأِ الْقُرْآنَ عَلٰی حَرْفٍ فَرَدَدْتُّ إِلَیْہِ أَنْ ھَوِّنْ عَلٰی أُمَّتِيْ، فَرَدَّ اِلَيَّ الثَّانِیَۃَ اقْرَأْہٗ عَلٰی حَرْفٍ فَرَدَدْتُّ اِلَیْہِ اَنْ ھَوِّنْ عَلٰی اُمَّتِيْ فَرَدَّ إِلَيَّ الثَّالِثَۃَ اقْرَأْہٗ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ وَلَکَ بِکُلِّ رَدَّۃٍ رَدَدْتُّکَھَا مَسْأَلَۃٌ تَسْأَلُنِیْھَا، فَقُلْتُ:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِيْ وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ إِلَيَّ الْخَلْقُ کُلُّھُمْ حَتّٰی إِبْرَاھِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ))۔صحیح[1] سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی داخل ہوا(پھر)نماز پڑھنی شروع کردی۔اس نے ایسی قراء ت پڑھی جسے میں نہیں جانتا تھا۔پھر ایک دوسرا آیا جس نے اپنے ساتھی سے مختلف قراء ت پڑھی۔جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے۔میں نے کہا: اس شخص نے ایسی قراء ت کی ہے جسے میں(بالکل)نہیں جانتا اور دوسرے نے اس سے علیحدہ قراء ت کی ہے(جسے میں نہیں جانتا)تو آپ نے انھیں(قرآن)پڑھنے کا حکم دیا۔دونوں نے قراء ت کی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خوب تعریف کی(دونوں کی قراء ت بالکل صحیح ہے) میرے دل میں(اپنی)تکذیب طاری ہوگئی اور نہ یہ کہ میں جاہلیت میں تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مجھے کسی(شدید پریشانی)نے ڈھانپ لیا ہے۔آپ نے(پیار سے)میرے سینے پر(ہاتھ)مارا۔میں پسینہ پسینہ ہوگیا گویا کہ میں خوف کی وجہ سے اللہ کو دیکھ رہا تھا۔پھر آپ نے مجھے فرمایا: ’’اے ابی! مجھ پر وحی کی گئی کہ میں قرآن کو ایک حرف(ولہجہ)میں پڑھوں تو میں نے درخواست کی کہ میری امت پر نرمی کی جائے۔پھر دوسری دفعہ مجھے ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیا گیا۔پھر میں نے دوبارہ اپنی امت کے لیے نرمی کی درخواست کی۔پھر تیسری دفعہ مجھ سے کہا گیا کہ قرآن کو سات حرفوں(لہجہ اور
[1] صحیح مسلم، صلٰوۃ المسافر باب فضائل القرآن:۸۲۰۔[السنۃ: ۱۲۲۷]