کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 61
تھے اور وضو کرتے تھے۔میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو جگانا پسند نہیں کیا۔جب آپ خود بیدار ہوئے پھر میں نے دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس میں پانی ڈالا۔پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! پئیں، پس آپ نے پیا حتیٰ کہ میں خوش ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا: کیا ہمارے سفر کرنے کا وقت نہیں ہوگیا؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر سورج کے ڈھلنے کے بعد ہم نے سفر شروع کیا۔سراقہ بن مالک بن جعثم نے ہمارا پیچھا کیا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم پکڑے گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ڈرو نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دعا کی تو سراقہ کا گھوڑا پیٹ تک ریت میں دھنس گیا۔زمین سے اس کی(اوپر والی)جلد نظر آرہی تھی۔راوی زہیر بن معاویہ کو(لفظ جلد میں)شک ہے۔پھر اس(سراقہ)نے کہا: میں نے تمھیں دیکھا ہے تم نے میرے لئے بددعا کی ہے۔اب میرے لیے دعا کرو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمھارا پیچھا کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹاؤں گاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی پھر اسے نجات ملی۔پھر اسے جو بھی ملتا اس سے کہتا: میں تمھارے لیے کافی ہوں وہ اس طرف نہیں گئے ہیں۔وہ ہر پیچھا کرنے والے کو واپس بھیجتا۔اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ (۵۶)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضى اللّٰه عنہأَنَّ أَبَابَکْرِالصِّدِّیْقِ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:نَظَرْتُ إِلٰی أَقْدَامِ الْمُشْرِکِیْنَ فَوْقَ رُؤُوسِنَا وَنَحْنُ فِی الْغَارِ فَقُلْتُ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لَوْ أَنَّ أَحَدَھُمْ نَظَرَ تَحْتَ قَدَمَیْہِ أَبْصَرَنَا، فَقَالَ:(( یَا أَبَابَکْرٍ مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا))۔[1] سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے اپنے سروں کے اوپر مشرکین کے قدموں کو دیکھا۔میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو ہمیں دیکھ لے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تمھارا ان دو آدمیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا(دوست)اللہ ہے؟ (۵۷)عَنْ أَنَسٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:سَمِعَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ بِمَقْدَمِ رَسُوْ ِل اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَھُوَ فِيْ أَرْضٍ یَحْتَرِفُ، فَأَتَی النَّبِيَّ ا فَقَالَ:إِنِّيْ أَسْأَلُکَ عَنْ ثَلاَثٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ إِلاَّ نَبِيٌّ:فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ، وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ، وَمَا یَنْزِعُ الْوَلَدَ إِلٰی أَبِیْہِ أَوْ إِلٰی [2]
[1] البخاري ح۴۶۶۳من حدیث حبان بن ھلال، والترمذي ح ۳۰۹۶ من حدیث عفان بہ وقال الترمذي:’’حسن صحیح۔‘‘[السنۃ:۳۷۶۴] [2] صحیح البخاري، التفسیر، سورۃ البقرۃ ح ۴۴۸۰۔[السنۃ:۳۷۶۹]