کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 551
سیدنا بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے میری سنت مردہ ہونے کے بعد(دوبارہ)زندہ کی۔اس کے لیے ان لوگوں جیسا اجرہوگا جو اس(سنت)پر عمل کریں گے اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے ایسی بدعت نکالی جس پر اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں ہیں تو اسے ان لوگوں کے برابر گناہ ملے گا جو اس بدعت پر عمل کریں گے اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (۱۲۳۷)عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِالنَّاسِ؛ فَلَہٗ أَجْرُ مِائَۃِ شَھِیْدٍ))۔ضعیف[1] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری سنت کو، لوگوں کے فساد کے وقت مضبوطی سے پکڑ لیا تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ (۱۲۳۸)عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی رضی اللّٰہ عنہ ،عَنِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ:(( مَثَلُ مَا بَعَثَنِی اللّٰہُ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ؛ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا، وَکَانَ مِنْھَا ثُغْبَۃٌ قَبِلَتِ الْمَائَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَا أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَائَ، فَنَفَعَ اللّٰہُ بِہَا النَّاسَ، فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا، وَأَصَابَ مِنْھَا طَائِفَۃً أُخْرٰی إِنَّمَا ھِيَ قِیْعَانٌ لاَ تُمْسِکُ مَائً، وَلَا تُنْبِتُ کَلَأً، فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ، وَنَفَعَہٗ بِمَا بَعَثَنِی اللّٰہُ بِہٖ، فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا، وَلَمْ یَـقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِہٖ))۔صحیح[2] سیدنا ابوموسیٰ(اشعری)رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس تیز بارش کی طرح ہے جو ایک زمین پر برستی ہے۔اس زمین کا ایک ٹکڑا پانی روک کر جذب کرلیتا ہے تو اس سے طرح طرح کے پودے اور گھاس پیدا ہوتے ہیں۔ زمین کے بعض ٹکڑے پانی روک لیتے ہیں جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔لوگ پیتے اور پلاتے ہیں اور زراعت کرتے ہیں اور ایک ٹکڑا ایسا ہے جو بے آب وگیاہ چٹان ہے جس پر نہ پانی رکتا ہے اور نہ گھاس اگاتاہے۔یہ(پہلی)مثال ہے اس کی جسے اللہ دین میں سوجھ بوجھ دے دیتا ہے اور جو دین الٰہی میں لایاہوں اس کو فائدہ دیتا ہے۔وہ خود(بھی)جانتا ہے اور دوسروں کو(بھی)سکھاتا ہے اور(آخری)مثال اس کی ہے جو دین سنتا ہی نہیں اور ہدایت قبول کرتا ہی نہیں۔
[1] ضعیف، محمد بن عکاشۃ کذاب وللحدیث طرق ضعیفۃ ذکرت بعضھا في تخریج المشکوٰۃ:۱۷۶۔ [2] صحیح البخاري:۷۹، مسلم:۲۲۸۲ عن محمد بن العلاء أبي کریب بہ۔[السنۃ:۱۳۵]