کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 534
پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹایا اور اسی طرح حدیث بیان کی(جوسابقہ حدیث گزر چکی ہے)اور یہ نہیں کہا کہ آپ اسی دن فوت ہوئے۔ (۱۱۹۶)عَنْ عَائِشَۃَ کَانَتْ تَقُوْلُ:إِنَّ مِنْ نِعَمِ اللّٰہِ عَلَيَّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تُوُفِّيَ فِيْ بَیْتِيْ، وَفِيْ یَوْمِيْ، وَبَیْنَ سَحْرِيْ وَنَحْرِيْ، وَأَنَّ اللّٰہَ جَمَعَ بَیْنَ رِیْقِيْ وَرِیْقِہٖ عِنْدَ مَوْتِہٖ، دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُالرَّحْمٰنِ ابْنُ أَبِيْ بَکْرٍ وَبِیَدِہٖ سِوَاکٌ، وَأَنَا مُسْنِدَۃٌ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فَرَأَیْتُہٗ یَنْظُرُ إِلَیْہِ، وَعَرَفْتُ أَنَّہٗ یُحِبُّ السِّوَاکَ، فَقُلْتُ:آخُذُہٗ لَکَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِہٖ أَنْ: نَعَمْ، فَتَنَاوَلْتُھَا فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ، وَقُلْتُ:أُلَیِّنُہٗ لَکَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِہٖ أَنْ:نَعَمْ، فَلَیَّنْتُہٗ فَأَمَرَّہٗ وَبَیْنَ یَدَیْہِ رَکْوَۃٌ أَوْ عُلْبَۃٌ یَشُکُّ عُمَرُ فِیْھَا مَائٌ، فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَائِ فَیَمْسَحُ بِہَا وَجْھَہٗ وَیَقُوْلُ(( لَا إِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ إِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٍ))ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ(( فِی الرَّفِیْقِ الْأَعْلٰی))حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ۔صحیح[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ اللہ کی مجھ پر نعمتوں میں سے یہ نعمت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن، میری گود اور سینے کے درمیان فوت ہوئے۔آپ کی وفات کے وقت اللہ نے میرا اور ان کا تھوک اکٹھا کردیا۔میرے پاس(میرے بھائی)عبدالرحمن بن ابی بکر آئے ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو(سینے کے ساتھ)سہارا دئیے بیٹھی تھی۔میں نے دیکھا کہ آپ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔میں جانتی تھی کہ آپ مسواک پسند کرتے ہیں۔تو میں نے کہا: میں یہ مسواک(اس سے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لے لوں؟ آپ نے سر(مبارک)سے اشارہ کیا کہ جی ہاں۔ میں نے مسواک آپ کو پکڑائی تو اسے کرنا آپ پر گراں گزرا۔میں نے کہا: میں اسے آپ کے لیے نرم کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ کیا کہ جی ہاں، میں نے اسے(دانتوں میں چبا کر)نرم کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی۔آپ کے پاس پانی کا ایک چھوٹا سا برتن تھا۔ آپ برتن میں اپنے دونوں ہاتھ داخل کرکے اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے: لا الٰہ الا اللہ، بے شک موت کی سختیاں ہوتی ہیں۔پھر آپ نے ہاتھ کھڑا کیا اور فرمانے لگے: (( فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی))۔ ’’بلندی والے دوست کے ساتھ۔‘‘
[1] صحیح البخاري، أیضًا:۴۴۴۹ [السنۃ:۳۸۲۶]۔