کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 530
آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ وہ میرے گھر میں بیماری کے دن گزاریں توانھوں نے اجازت دے دی آپ دو آدمیوں کے ساتھ باہر تشریف لائے۔آپ کے پاؤں(کمزوری کی وجہ سے)زمین پر گھسٹے جارہے تھے۔آپ عباس بن عبدالمطلب اورایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ عبداللہ(بن عبداللہ بن عتبہ: تابعی رحمہ اللہ)نے کہا: میں نے عبداللہ(بن عباس)کو یہ حدیث سنائی تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تجھے پتا ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ علی بن ابی طالب ہیں۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے گھر میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری تیز ہوگئی۔آپ نے فرمایا: مجھ پر سات ایسی مشکوں کا پانی بہادو جن کے(ابھی)منہ نہیں کھلے ہیں۔ہوسکتا ہے میں لوگوں کو نصیحتیں کروں۔ہم نے آپ کو حفصہ زوجۂ رسول کے نہانے کے برتن میں بٹھایا پھر آپ پر ان مشکوں کا پانی بہایا۔جب آپ کو آرام ہوا تو اشارہ کیا کہ بس کرو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اورخطبہ دیا۔عائشہ اور ابن عباس(دونوں)بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت آیا تو ایک چادر اپنے چہرے پرڈالتے۔پھر جب اس سے دل تنگ ہوتا تو چہرہ(مبارک)ننگا کردیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں فرمایا: یہودیوں اور نصرانیوں پر اللہ کی لعنت ہو۔انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام سے(اپنے امتیوں کو)ڈرا رہے تھے۔ (۱۱۹۲)عَنْ عُبَیْدِاللّٰہِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ:(( دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ:ألَاَ تُحَدِّثُنِيْ عَنْ مَرَضِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ قَالَتْ: بَلٰی، ثَقُلَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ:(( أَصَلَّی النَّاسُ؟))قُلْنَا: لَا، ھُمْ یَنْتَظِرُوْنَکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ:(( ضَعُوْا لِيْ مَائً فِی الْمِخْضَبِ))قَالَتْ:فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ فَذَھَبَ لِیَنُوْئَ فَأُغْمِيَ عَلَیْہِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ:(( أَصَلَّی النَّاسُ؟))قُلْنَا: لَا، ھُمْ یَنْتَظِرُوْنَکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ضَعُوْالِيْ مَائً فِی الْمِخْضَبِ قَالَتْ: فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَھَبَ لِیَنُوْئَ، فَأُغْمِيَ عَلَیْہِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:((أَصَلَّی النَّاسُ؟))قُلْنَا: لَا، ھُمْ یَنْتَظِرُوْنَکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَالنَّاسُ عُکُوْفٌ فِی الْمَسْجِدِ یَنْتَظِرُوْنَ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِصَلَاۃِ عِشَائِ اْلآخِرَۃِ ، فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِلٰی أَبِيْ بَکْرٍ أَنْ یُّصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاہُ الرَّسُوْلُ فَقَالَ: إِنَّ [1]
[1] صحیح البخاري:۶۸۷، مسلم:۴۱۸ عن أحمد بن عبداللّٰہ بن یونس بہ۔