کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 528
اگر میں زندہ ہوا اور تو مرجاتی تو میں تیری مغفرت کی دعا کرتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میری بدنصیبی، اللہ کی قسم!میرا گمان ہے کہ آپ میری موت چاہتے ہیں اوراگر ایسا ہوگیا تو اسی دن آپ اپنی کسی بیوی کے پاس شب زفاف منائیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میرے سر میں درد ہورہا ہے۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور ان کے بیٹے(عبدالرحمن)کو بلاؤں اور وعدہ لے لوں تاکہ تمنا کرنے والے لوگ کچھ کہہ نہ سکیں۔پھر میں نے(دل میں)کہا: اللہ بھی نہیں مانے گا اور مومن بھی دفاع کریں گے۔یا اللہ دفاع کرے گا اور مومن بھی اس کے خلاف نہیں مانیں گے۔ (۱۱۸۸)عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِيْ مَرَضِہِ:(( ادْعِيْ لِيْ أَبَابَکْرٍ أَبَاکِ، وَأَخَاکِ حَتّٰی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّيْ أَخَافُ أَنْ یَّتَمَنّٰی مُتَمَنٍّ۔وَیَقُوْلَ قَائِلٌ:أَنَا أَوْلٰی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَ یَدْفَعُ الْمُؤْمِنُوْنَ إِلاَّ أَبَابَکْرٍ))۔صحیح[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ابو بکر اور بھائی(عبدالرحمن)کو بلاؤتاکہ میں ایک تحریر لکھوادوں۔مجھے ڈر ہے کہ(خلافت کی)تمنا کرنے والے تمنا نہ کرنے لگیں اور کوئی یہ نہ کہہ دے کہ میں زیادہ(خلافت کا)حق دار ہوں۔اللہ اور مومن سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کسی کو نہیں مانیں گے۔ (۱۱۸۹)عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ:قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:یَوْمُ الْخَمِیْسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیْسِ! اشْتَدَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَجَعُہٗ فَقَالَ:(( ائْتُوْنِيْ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ أَبَدًا))فَتَنَازَعُوْا وَلَا یَنْبَغِيْ عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوْا: مَا شَأْنُہٗ أَھَجَّرَ؟ اسْتَفْھِمُوْہُ، فَذَھَبُوْا یَرُدُّوْنَ عَنْہُ، فَقَالَ:((دَعُوْنِيْ فَالَّذِيْ أَنَا فِیْہِ خَیْرٌ مِّمَّا تَدْعُوْنَنِيْ إِلَـیْـہِ))وَأَوْصَاھُمْ بِثلَاَثٍ، قَالَ:(( أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ، وَأَجِیْزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیْزُھُمْ))وَسَکَتَ عَنِ الثَّالِثَۃِ ـ أَوْ قَالَ: فَنَسِیْتُھَا))۔صحیح[2] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ہائے جمعرات کا دن، اور جمعرات کا دن کیسا تھا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری تیز ہوگئی تو آپ نے فرمایا: ایک کاغذ لے آؤ۔میں ایک تحریر لکھوا دیتا ہوں تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے تو لوگوں نے جھگڑا شروع کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا کرنا جائز نہیں ہے۔
[1] صحیح مسلم:۲۳۸۷۔ [2] صحیح البخاري:۴۴۳۱، مسلم:۱۶۳۷ من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ۔