کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 38
وَخَلَوْتُ بِھِمْ قُلْتُ لَھُمْ:لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِيْ کَبْشَۃَ ھٰذَا مَلِکُ بَنِی الْأَصْفَرِ یَخَافُہٗ قَالَ أَبُوْسُفْیَانَ:وَاللّٰہِ مَا زِلْتُ ذَلِیْلاً مُسْتَیْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَہٗ سَیَظْھَرُ حَتّٰی أَدْخَلَ اللّٰہُ قَلْبِيَ الْإِسْلَامَ، وَأَنَا کَارِہٌ۔صحیح سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر کی طرف لکھا(خط لکھوا کر بھیجا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔آپ نے اپنا خط دحیہ الکلبی کو دے کر بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ اسے بصرہ کے والی کو دے دو تاکہ وہ اسے قیصر(عیسائی بادشاہ)تک پہنچادے۔اللہ نے جب ایران کے فوجیوں کو قیصر سے ہٹایا(قیصر کو مجوسیوں پر فتح دی)تو قیصر نے اس آزمائش پر اللہ کے شکر کے لیے حمص سے ایلیاء تک پیدل سفر کیا۔جب قیصر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا تو اس نے پڑھنے والے سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے کسی کو میرے لیے تلاش کرو تاکہ میں اس سے کچھ سوالات پوچھوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابوسفیان نے خبر دی وہ ان دنوں قریشیوں کے ساتھ تجارت کے لیے شام گئے ہوئے تھے۔اس مدت میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان(صلح حدیبیہ والا)معاہدہ ہوا تھا۔ابوسفیان بیان کرتے ہیں کہ ہم نے شام کے بعض علاقے میں قیصر کے ایلچی کو دیکھا وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو لے کر ایلیاء شہر آیا۔ہمیں قیصر کے پاس لے جایا گیا۔وہ اپنی حکومت(کے نشے)میں بیٹھا ہوا تھا اس کے سر پر ایک تاج رکھا ہوا تھا اور اس کے اردگرد رومیوں کے سردار موجود تھے۔اس نے اپنے ترجمان سے کہا: ان سے پوچھو کہ ان میں سے کون اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے؟ ابوسفیان نے کہا: میں ان لوگوں میں نسب کے لحاظ سے اس کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔اس نے کہا: تمھاری اس کے ساتھ کیا قرابت(رشتہ داری)ہے؟ میں نے کہا: وہ میرا چچازاد بھائی ہے۔اس دن ان لوگوں میں میرے سوا کوئی دوسرا شخص بنی عبدمناف میں سے نہیں تھا۔قیصر نے کہا: اسے میرے قریب کردو۔پھر اس نے میرے ساتھیوں کو حکم دے کر میرے پیچھے کھڑا کردیا۔پھر اپنے ترجمان سے کہا: اس کے ساتھیوں سے کہوکہ میں اس آدمی سے اس شخص کے بارے میں سوالات کرنے والا ہوں جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔اگر یہ شخص جھوٹ بولے تو تم اسے جھٹلانا۔ابوسفیان نے کہا: اللہ کی قسم اگر اس دن مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی کہ میرے ساتھی میرے جھوٹ کو بیان کرتے رہیں گے تو میں اسے اپنے بارے میں(خوب مبالغہ کرکے خلافِ واقعہ باتیں)بتاتا جب اس نے مجھ سے سوالات کیے تھے لیکن میرے لئے شرم وحیا مانع تھی کہ یہ لوگ