کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 370
جائے تو تم کیا جواب دوگے؟ (صحابہ رضی اللہ عنہم نے)کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے(دین)پہنچا دیا اور(حق)ادا کردیا اور(امت کو)نصیحت کردی۔ آپؐ نے شہادت کی انگلی کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور لوگوں کی طرف پھیرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ ہو جا' اے اللہ !تو گواہ رہ' آپ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔پھر(بلال رضی اللہ عنہ نے)اذان دی پھر اقامت کہی تو ظہر کی نماز پڑھائی۔پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی اوران کے درمیان(دوسری)کوئی نماز نہیں پڑھی۔پھر سوار ہو کر موقف تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی کا پیٹ(جبل رحمت کے)پتھروں کی طرف کیا اور پیدل چلنے والوں کا پہاڑ اپنے سامنے رکھا اور قبلہ رخ کیا۔آپ سورج غروب ہونے اور تھوڑی زردی کے دور ہونے تک وہیں کھڑے رہے۔آپ نے اسامہ کو اپنے پیچھے سوار کیا اور روانہ ہوگئے۔اونٹنی کی لگام کھینچ لی حتیٰ کہ اس کا سر کجاوے کی لکڑی سے لگنے لگا اوردائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اے لوگو! سکون اختیار کرو' سکون اختیار کرو۔جب آپ کسی ٹیلے کے پاس پہنچتے تو اس کی لگام تھوڑی ڈھیلی کردیتے تاکہ وہ چڑھ جائے حتیٰ کہ مزدلفہ پہنچ گئے تو وہاں آپ نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ پڑھی اور ان کے درمیان کسی قسم کے نوافل نہیں پڑھے۔ پھر لیٹ گئے جب فجر طلوع ہوئی تو فجر ظاہر ہونے کے بعد اذان واقامت کہہ کر فجر کی نماز پڑھی۔پھر قصوا(اونٹنی)پر سوار ہو کر مشعر حرام آئے اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی’’تکبیریں‘‘ لا الٰہ الا اللہ اور اللہ کی وحدانیت بیان فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک کھڑے رہے جب تک خوب روشنی پھیل گئی۔پھر سورج کے طلوع سے پہلے ہی روانہ ہوگئے۔ سواری پر اپنے پیچھے فضل بن عباس کو بٹھا لیا حتیٰ کہ وادی محسر کے درمیان پہنچے تو(سواری کو)تھوڑا(تیز)چلایا۔ پھر جمرہ کبریٰ کے درمیانی راستے پر چل کر اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے نیچے ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کنکریاں' ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے ماریں۔جس طرح کی چھوٹی کنکریاں پھینکی جاتی ہیں۔وادی کے درمیان میں ماریں۔ پھر قربان گاہ آئے تو اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹ ذبح کئے۔پھر(باقی اونٹ)علی رضی اللہ عنہ کو دے