کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 270
جوڑوں کی ہڈیاں مضبوط ،انتہائی چمکدار اور بڑی تھیں۔ناف اور سینے پر بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔چھاتی اور پیٹ پر بال نہیں تھے۔ہاتھوں اور کندھوں پر کچھ بال تھے، سینہ بلند، لمبی کلائیاں، فراخ ہتھیلیاں، پاؤں گداز اور پُرگوشت تھے۔انگلیاں اعتدال کے ساتھ لمبی تھیں۔تلوے گہرے اور قدم ملائم ہموار تھے۔پانی ان سے فوراً ڈھل جاتا تھا۔آگے کو جھکے ہوئے عاجزی کے ساتھ تیز تیز چلتے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ ڈھلوان سے نیچے اتر رہے ہیں جب آپ رخ پھیرتے تو پورا پھیرتے۔نظریں آسمان کے بجائے زمین کی طرف ہوتی تھیں۔آپ گوشۂ چشم سے دیکھتے۔چلتے وقت اپنے صحابہ کو آگے کرلیتے جو ملتا اسے پہلے سلام کہتے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنے ماموں سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت گفتگو مجھے بتائیں تو انہوں نے کہا: دائمی فکر اور غم میں رہتے تھے۔آپ کو بے فکری والی راحت حاصل نہیں تھی۔لمبی دیر خاموش رہتے اور بغیر کسی ضرورت کے بات نہ کرتے۔ابتدا سے آخر تک ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے۔دوٹوک اور جامع کلمات ٹھہر ٹھہر کر ادا کرتے۔نہ تو فضول گوئی ہوتی اور نہ کم گوئی کا تصور۔نہ بہت زیادہ نرم خو تھے اور نہ سخت مزاج۔نعمتوں(اور تحفوں)کی عزت کرتے اگرچہ تھوڑی ہوتیں کسی میں نقص نہیں نکالتے تھے۔کھانے کی نہ تعریف کرتے اور نہ برائی نکالتے۔دنیا کی وجہ سے آپ کو غصہ نہیں آتا تھا اور جب کسی کی حق تلفی ہوتی تو جب تک بدلہ نہ لے لیتے آپ کا غضب کم نہیں ہوتا تھا۔اپنی ذات کے لیے نہ تو ناراض ہوتے اور نہ کسی سے بدلہ لیتے۔ جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور جب آپ کو تعجب ہوتا تو ہتھیلی پلٹ دیتے تھے۔جب بات کرتے تو اسے ملالیتے اور کبھی دائیں ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصے پر مارتے۔جب کسی سے ناراض ہوتے تو منہ پھیر لیتے۔عام طور پر مسکراتے تھے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ حدیث ایک زمانے تک حسین رضی اللہ عنہ سے مخفی رکھی پھر جب انھیں بتائی تو معلوم ہوا کہ وہ پہلے سے ہی اسے جانتے تھے۔اس نے میری باتیں پوچھی تھیں بلکہ اس نے اپنے(اور میرے)والد(علی رضی اللّٰہ عنہ)سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آنے، باہر جانے اور طرز عمل کے بارے میں بھی پوچھا تھا۔اس نے کوئی کسر باقی نہ رکھی۔حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اپنے والد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دخول کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ایک حصہ اللہ کی عبادت کے لیے، دوسرا اپنے گھر والوں کے لیے اور تیسرا اپنے لیے۔پھر اپنے ذاتی حصے کو بھی دوسرے لوگوں پر