کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 255
جب آئے تو فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا!اسے لوٹا دو۔اللہ کی قسم! اگر میں چاہتا تو میرے لیے اللہ سونے چاندی کے پہاڑ چلا دیتا۔انہوں نے فرمایاکہ وہ بسترانھوں(عائشہ رضی اللہ عنہا)نے واپس کردیا۔ (۴۳۰)عَنْ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( إِنَّا أَھْلُ بَیْتٍ اخْتَارَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَنَا الْآخِرَۃَ عَلَی الدُّنْیَا))۔[1] سیدنا عبداللہ(بن مسعود)رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم اہل بیت کے لیے اللہ نے دنیا کے بدلے آخرت کو چن لیا ہے۔ (۴۳۱)عَنْ أَنَسٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( یَئِسْتُ مِنَ الدُّنْیَا وَیَئِسَتْ مِنِّيْ، إِنِّيْ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ نَسْتَبِقُ))۔[2] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دنیا سے مایوس ہوں اور دنیا مجھ سے مایوس ہے۔مجھے اور قیامت کو مسابقت کرتے ہوئے بھیجا گیا ہے۔ (۴۳۲)عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ:أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، نَامَ عَلٰی حَصِیْرٍ، وَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِيْ جَسَدِہٖ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَّبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ، فَقَالَ:((مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا، وَمَا أَنَا وَالدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ؛ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا))۔[3] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوگئے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے تو اس چٹائی کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر تھا تو آپ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے لیے کوئی(بہترین)چیز تیار کرکے بچھائیں آپ نے فرمایا: مجھے دنیا کی کیا پروا ہے میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی ہے جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکا۔(تھوڑی دیر)آرام کیا اور پھر اسے چھوڑ دیا(اور چل پڑا)۔ (۴۳۳)عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا شَبِعَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ خُبْزٍ شَعِیْرٍ یَوْمَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؛ حَتّٰی قُبِضَ۔صحیح[4]
[1] إسنادہ ضعیف، أبوالشیخ ص۲۷۳، ابن أبي شیبۃ(۱۵/۲۳۵، ۷۳۶ ح ۱۹۵۷۳)ابن ماجہ: ۴۰۸۶ من حدیث معاویۃ بن ھشام بہ مطولًا، یزید بن أبي زیاد ضعیف مشھور ولم تثبت متابعۃ الحکم لہ۔ [2] إسنادہ ضعیف، أبوالشیخ ص۲۶۶ أیوب بن خالد ضعیف کما فی التقریب(۶۱۱)۔ [3] حسن، الترمذي:۲۳۷۷ من حدیث زید بن حباب بہ وللحدیث شواھد۔[السنۃ:۴۰۳۴] [4] صحیح، أخرجہ الترمذي:۲۳۵۷ و فی الشمائل:۱۴۲، ۱۴۸، أبوداود الطیالسي:۱۳۸۹ مسلم: ۲۹۷۰ من حدیث شعبۃ بہ۔