کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 25
الْوَحْيُ فَتْرَۃً حَتّٰی حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدا مِنْہُ مِرَارًا کَيْ یَتَرَدّٰی مِنْ رُؤُوْسِ شَوَاھِقِ الْجِبَالِ، فَکُلَّمَا أَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ لِکَيْ یُلْقِيَ نَفْسَہٗ مِنْہُ تَبَدّٰی لَہٗ جِبْرِیْلُ فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ اِنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا فَیَسْکُنُ لِذٰلِکَ جَأْشُہٗ وَتَقِرُّ نَفْسُہٗ فَیَرْجِعُ، فَاِذَا طَالَتْ عَلَیْہِ فَتْرَۃُ الْوَحْيِ غَدَا بِمِثْلِ ذٰلِکَ، فَاِذَا أَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ تَبَدّٰی لَہٗ جِبْرِیْلُ مِثْلَ ذٰلِکَ۔
ابن شہاب الزہری نے یہ حدیث بیان کی تو مزید فرمایا: پھر ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی ایک عرصہ(تین سال)تک رکی رہی حتیٰ کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ آپ نے کئی دفعہ غم کی وجہ سے سوچا کہ اپنے آپ کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے گرادیں۔جب بھی آپ اپنے آپ کو گرانے کے لیے کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے تو جبریل(علیہ السلام)آپ کے پاس آکر کہتے: ’’اے محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم)آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سکون وقرار ہوتا پھر آپ واپس(اتر کر)لوٹ جاتے۔پھر جب وحی کے رکنے کا عرصہ طویل ہوجاتا تو آپ دوبارہ اسی طرح(پہاڑ کی چوٹی پر جا کر اپنے آپ کو گرانے کا ارادہ)کرتے۔آپ جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو اسی طرح جبریل(علیہ السلام)ظاہر ہوجاتے(جیسا کہ پہلے ظاہر ہوتے تھے)۔
(۱۹)عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَۃِ الْوَحْيِ:((فَبَیْنَا أَنَا أَمْشِيْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَائِ،فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ قِبَلَ السَّمَآئِ فَإِذَا الْمَلَکُ الَّذِيْ جَآئَ نِيْ بِحِرَآئٍ قَاعِدٌ عَلٰی کُرْسِيٍّ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْہُ حَتّٰی ھَوَیْتُ إِلَی الْاَرْضِ، فَجِئْتُ أَھْلِيْ فَقُلْتُ:زَمِّلُوْنِيْ فَزَمَّلُوْنِيْ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿ یَآ اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَـأَنْذِرْ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ رضی اللّٰه عنہ فَاھْجُرْ﴾ ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ))۔صحیح[1]
سیدنا جابر بن عبداللہ(الانصاری)رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کے رکنے(والے زمانے)کی حدیث بیان کرتے ہیں:
’’میں چل رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک آواز سنی تو اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی(اور دیکھا)وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان اور زمین کے درمیان ایک(بہت بڑی)کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔میں اتنا ڈرا کہ زمین پر گرنے کے قریب تھا۔پھر میں اپنے گھر آیا اور کہا: ’’مجھے(چادر)اوڑھادو،،
[1] صحیح البخاري، التفسیر، تفسیر سورۃ المدثر:باب ۵ ح ۴۹۲۶۔ومسلم(۲۳۳۳)