کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 249
ہیں! آپ نے فرمایا: مجھے پانی پلا۔پھر آپ نے اس سے پانی پیا پھر آپ زمزم کے پاس آئے(کچھ)لوگ پانی پلا رہے تھے اور(وہاں)کام کر رہے تھے تو آ پ نے فرمایا: کام کر، تو اچھا کام کر رہا ہے، پھر فرمایا: اگر میرے مغلوب ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اتر کر اپنی گردن پر رسی رکھ کر پانی نکالتا۔ (۴۱۳)عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:أَتَی النَّبِيَّ ا رَجُلٌ یُکَلِّمُہٗ فَأُرْعِدَ، فَقَالَ :(( ھَوِّنْ عَلَیْکَ فَلَسْتُ بِمَلِکٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَۃٍ مِّنْ قُرَیْشٍ کَانَتْ تَأْکُلُ الْقَدِیْدَ))۔[1] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بات کرنے کے لیے ایک آدمی لایا گیا تو وہ کانپ رہا تھا۔آپ نے فرمایا: ڈرو نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھاتی تھی۔ (۴۱۴)عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ:قُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کُلْ جَعَلَنِي اللّٰہُ فِدَائَ کَ مُتَّکِئًا، فَإِنَّہٗ أَھْوَنُ عَلَیْکَ، قَالَ:فَأَصْغٰی بِرَأْسِہٖ حَتّٰی کَادَ أَنْ یُّصِیْبَ جَبَھَتُہُ الْأَرْضَ، فَقَالَ :(( لَا، بَلْ آکُلُ کَمَا یَأْکُلُ الْعَبْدُ، وَأَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ))۔[2] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اللہ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ تکیہ لگا کر کھائیں۔یہ آپ کے لیے زیادہ آرام دہ ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اتنا جھکالیا حتیٰ کہ قریب تھا کہ آپ کی پیشانی مبارک زمین کو چھونے لگے پھر فرمایا نہیں، بلکہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے کہ(اللہ کا)ایک بندہ کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جیسا کہ(اللہ کا)ایک بندہ بیٹھتا ہے۔ (۴۱۵)عَن عَائِشَۃَ قَالَتْ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :(( یَا عَائِشَۃُ! لَوْشِئْتُ لَسَارَتْ مَعِيَ جِبَالُ الذَّھَبِ، جَائَ نِيْ مَلَکٌ إِنَّ حُجْزَتَہٗ لَتُسَاوِی الْکَعْبَۃَ، فَقَالَ:إِنَّ رَبَّکَ یَقْرَاُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ، وَیَقُوْلُ:إِنْ شِئْتَ نَبِیًّا عَبْدًا وَإِنْ شِئْتَ نَبِیًّا مَلِکًا، فَنَظَرْتُ إِلٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ فَأَشَارَ إِلَيَّ أَنْ ضَعْ نَفْسَکَ، فَقُلْتُ:نَبِیًّا عَبْدًا))۔قَالَتْ:فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بَعْدَ ذٰلِکَ لَا یَأْکُلُ مُتَّکِئًا، یَقُوْلُ:(( آکُلُ کَمَا یَأْکُلُ الْعَبْدُ وَأَجْلِسُ کَمَا یَجْلِسُ الْعَبْدُ))۔[3]
[1] إسنادہ ضعیف، أبوالشیخ ص۶۶، ابن ماجہ: ۳۳۱۲ من حدیث إسماعیل بن أبی الحارث بہ، إسماعیل بن أبي خالد عنعن فی السند المتصل وصرح بالسماع فی السند المرسل ومع ذلک صححہ الحاکم علٰی شرط الشیخین ۳/۴۸ ووافقہ الذھبي۔ [2] ضعیف، أبوالشیخ ص ۶۷ عبیداللّٰه بن الولید الوصافي ضعیف والمحاربي عنعن۔[السنۃ:۲۸۳۹] [3] ضعیف،أبوالشیخ ص۱۹۷، أبومعشر ضعیف۔