کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 247
ہوگیا اور آپ کے ساتھ چلنے لگا۔ میرا اونٹ آپ(کے اونٹ)سے آگے جارہا تھا۔اس رات آپ نے میرے لیے پچیس مرتبہ استغفار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: کیا(میرے والد)عبداللہ نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی؟ میں نے کہا: سات عورتیں(سات بہنیں ہیں)آپ نے فرمایا: کیا اس نے اپنے اوپر کوئی قرض چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: جب تم مدینے پہنچو تو ان سے نرمی کی درخواست کرنا۔اگر وہ انکار کریں تو جب تمھاری کھجوروں کے کٹنے کا وقت آجائے تو مجھے اطلاع دے دینا۔آپ نے فرمایا: کیا تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کس کی بیٹی سے؟ میں نے کہا: فلاں کی بیٹی فلاں سے جو مدینے کی سابقہ شادی شدہ عورتوں میں سے ایک تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کنواری سے شادی کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے او روہ تم سے کھیلتی؟ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میرے گھر میں کم عورتیں یعنی میری بہنیں ہیں اس لیے میں نے یہ ناپسند کیا کہ ان پر ایک چھوٹی ناسمجھ لڑکی لے آؤں۔لہٰذا میں نے کہا کہ یہ عورت میرے لیے زیادہ مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک اور اچھا کیا۔اپنا یہ اونٹ مجھے بیچ دو، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سونے کے پانچ اوقیوں کے بدلے لے لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے لے لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا آپ نے فرمایا: اے بلال! اسے پانچ اوقیہ سونا دے دو، جس سے وہ(اپنے والد)عبداللہ کا قرض اتارے گا اور اسے تین(اوقیے)زیادہ دینا اور اس کا اونٹ بھی اسے واپس کردو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے عبداللہ کے قرض خواہوں کو راضی کرلیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کیا اس(عبداللہ)نے یہ قرض چکانے کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: فکر نہ کرو، جب تمھاری کھجوروں کی کٹائی کا وقت آئے تو مجھے مطلع کردینا۔پس میں نے آپ کو اطلاع دے دی۔ آپ نے ہمارے لیے دعا فرمائی پھر ہم نے وہ کھجوریں کاٹیں۔ہر قرض خواہ کو پورا پورا حصہ دے دیا گیا اور ہمارے لیے بہت زیادہ کھجوریں بچ گئیں۔آپ نے فرمایا:(میزان)اٹھالو اور انھیں نہ تولنا۔ہم نے میزان اٹھالی اور ایک زمانہ تک وہ کھجوریں کھاتے رہے۔