کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 230
أَتَجْعَلُ نَھْبِيْ وَنَھْبَ الْعُبَیْدِ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ وَالْأَقْرَعٖ فَمَا کَانَ بَدْرٌ وَلَا حَابِسٌ یَفُوْقَانِ مِرْدَاسَ فِی الْمَجْمَعٖ وَمَا کُنْتُ دُوْنَ امْرِیٍٔ مِّنْھُمَا وَمَنْ تَخْفِضِ الْیَوْم لَا یَرْفَعٖ قَالَ :فَأَتَمَّ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِائَۃً۔صحیح سیدنا رافع بن خدیج نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس سب کو(مال غنیمت سے)سو سو اونٹ دئیے اور عباس بن مرداس کو ان سے کم دئیے تو عباس رضی اللہ عنہ نے چند اشعار کہے جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ عیینہ اور اقرع کے درمیان تقسیم کیا جاتا ہے؟ بدر اور حابس کو مرداس پر مجھ میں برتری نہیں ملنی چاہیے۔میں ان دونوں سے کم مرتبہ انسان نہیں ہوں جو آج نیچا ہوگا وہ کبھی اونچا نہیں ہوگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورے سو اونٹ دے دئیے۔‘‘ (۳۶۷)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللّٰہ عنہ أَنَّ رَجُلًا جَائَ إِلَی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَسَأَلَہٗ أَنْ یُّعْطِیَہٗ، فَقَالَ النَّبِيُّ ا :(( مَا عِنْدِيْ شَيْئٌ، وَلٰکِنِ ابْتَعْ عَلَيَّ؛فَإِذَا جَائَ نِيْ شَيْئٌ قَضَیْتُہٗ))فَقَالَ عُمَرُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا کَلَّفَکَ اللّٰہُ مَالَا تَقْدِرُ عَلَیْہِ، فَکَرِہَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَوْلَ عُمَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَنْفِقْ وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ إِقْلاَلاً۔فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَعُرِفَ الْبِشْرُ فِيْ وَجْھِہٖ بِقَوْلِ الْأَنْصَارِيِّ، ثُمَّ قَالَ:بِہٰذَا أُمِرْتُ۔[1] سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سوال کیا کہ آپ اسے کچھ دے دیں۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس(فی الحال)کوئی چیز نہیں ہے تم میرے نام پر کوئی چیز خرید لو۔جب کوئی چیز آگئی تو وہ قرض میں ادا کردوں گا۔(ان شاء اللہ) عمر( رضی اللّٰہ عنہ)نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ نے اس چیز کا آپ کو مکلف(مجبور)نہیں ٹھہرایا جس کا اختیار آپ کے پاس نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو برا جانا تو ایک انصاری نے کہا: یارسول اللہ! آپ خرچ کریں اور اس سے نہ ڈریں کہ عرش والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم(کے رزق)کے بارے میں کوئی کمی کرے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے انصاری کی بات سے آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آنے لگے۔پھر آپ
[1] إسنادہ ضعیف، الترمذي فی الشمائل: ۳۵۴ موسی بن أبي علقمۃ مجھول ولہ متابعۃ مردودۃ۔