کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 22
اس نے فرمایا:یقیناً ہر مال جو میں نے اپنے بندے کو دیا ہے ان کے لیے حلال ہے۔میں نے اپنے تمام بندوں کو دین حنیف پر(موحد اور غیر مشرک)پیدا کیا ہے۔پھر شیطانوں نے انھیں اپنے دین سے دور کردیا۔میں نے ان کے لیے جو حلال کیا تھا وہ انھوں نے حرام قرار دیا اور انھیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں(حالانکہ)میں نے اس پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔اللہ نے دنیا والوں پر نظر کی تو ان سے ناراض ہوا چاہے عرب ہوں یا عجم سوائے اہل کتاب کے باقی رہ جانے والے لوگوں کے(جو دین کی توحید پر قائم تھے)اور بے شک مجھے اللہ نے حکم دیا کہ میں قریش کو جلا دوں تو میں نے کہا: اے میرے رب! وہ لوگ میرے سر کو کچل کر روئی کی طرح بنادیں گے۔اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے اس لیے بھیجا ہے کہ تجھے آزماؤں اور تیرے ساتھ لوگوں کو آزماؤں۔میں نے تجھ پر(اپنی)کتاب نازل کی ہے جسے(اس کے تمام نسخوں کے ساتھ)پانی دھو نہیں سکے گا(یہ کتاب باقی رہے گی)تو اسے نیند اور بیداری میں پڑھے گا۔تو ان کے ساتھ جہاد کر ہم تیری مدد کریں گے تو(اللہ کے راستے میں)خرچ کر ہم تجھ پر خرچ کریں گے۔ایک لشکر بھیج ہم اس کی پانچ گنا کے ساتھ تیری مدد کریں گے۔اپنے فرماں برداروں کے ساتھ مل کر اپنے نافرمانوں کے خلاف قتال کر۔پھر فرمایا: جنت والے تین طرح کے لوگ ہیں:(۱)عادل حکمران(۲)ہر رشتہ دار و مسلمان کے لیے نرم دل اور مہربان آدمی(۳)پرہیزگار، صدقہ کرنے والا امیر آدمی اور جہنم والے پانچ طرح کے لوگ ہیں:(۱)ایسا کمزور آدمی جس کی عقل نہیں جو تمھارے اندر(ایک دوسرے کے)پیچھے چلنے والے ہیں۔اس کے ساتھ انھیں نہ اہل چاہئے اور نہ مال(شیطانوں کی اندھا دھند پیروی کرنے والے لوگ)(۲)اور ایسا آدمی جو اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ وہ تجھے گھر اور مال کے بارے میں دھوکا دے رہا ہوتا ہے(۳)اور ایسا آدمی جس کے لیے کوئی لالچ مخفی نہیں اگرچہ ہلکی(معمولی)ہی چیز ہے، مگر وہ لے کر جارہا ہے(۴)اور بداخلاق فحش بکنے والا(۵)اور(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے)بخل اور جھوٹ کا بھی ذکر کیا۔
ابتدائے وحی اور کیفیت نزول
(۱۷)عَنْ عَائِشَۃَ اُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھَا اَنَّھَا قَالَتْ أَوَّلُ مَابُدِيَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ، وَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیَا إِلاَّ جَائَ تْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلاَئُ، فَکَانَ یَخْلُوْ بِغَارِ حِرَائَ فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ۔وَھُوَ التَّعَبُّدُ [1]
[1] صحیح البخاري: بدء الوحي ح ۳ و ۶۹۸۲ ومسلم(۱۶۰)[السنۃ:۳۷۳۵]۔