کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 210
کھیتی باڑی کی اجازت مانگے گا۔(اللہ اس سے)کہے گا: کیا تجھے وہ حاصل نہیں جو تونے مانگا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، لیکن میں زراعت کرنا چاہتا ہوں۔پس اس نے جلدی جلدی دانے بو دئیے تو فوراً اس کی کھیتی تناور ہو کر لہرانے لگی۔پھر کٹ گئی اور پہاڑوں جیسے ڈھیر بن گئے۔اللہ کہے گا: اے آدم کے بیٹے لے تو، تجھے کوئی چیز سیراب نہیں کرسکتی۔ اعرابی نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ آدمی قریشی یا انصاری ہی ہوگا،کیونکہ یہ کھیتی باڑی کرنے والے لوگ ہیں ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ (۳۱۱)عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ قَالَ:کُنْتُ عِنْدَ عَائِشَۃَ وَنَحْنُ نَذْکُرُ حُمَّی الْمَدِیْنَۃِ وَانْتِقَالَھَا إِلٰی مَھْیَعَۃَ، وَنَضْحَکُ۔ثُمَّ صِرْنَا إِلٰی حَدِیْثِ بَرِیْرَۃَ وَمَسْأَلَتِھَا، فَافْتَتَحَ عَلَیْنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، فَلَمَّا رَاَیْنَاہُ أَکْثَرْنَا، وَقَالَ:دَعْنَا مِنْ بَاطِلِکُمَا، قَالَتْ عَائِشَۃُ:سُبْحَانَ اللّٰہِ اَلَمْ تَسْمَعْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَقُوْلُ:(( إِنِّيْ لَأَمْزَحُ وَلَا أَقُوْلُ إِلاَّ حَقًّا))۔[1] سیدنا عبیداللہ بن عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس(بیٹھا)تھا۔ہم مدینے کے نجار اور اس کے مہیعہ(ایک جگہ کا نام)کی طرف منتقل ہوجانے کا تذکرہ کررہے تھے اور(باہم)ہنس رہے تھے۔پھر ہم نے بریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اس کے سوال کا ذکر کیا۔پھر ہمارے پاس عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا تشریف لائے تو ہم نے بہت زیادہ باتیں کیں۔انہوں نے کہا: اپنی یہ باطل باتیں چھوڑ دو،، عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میں مزاح کرتا ہوں اور میں حق(وسچ)کے سوا کوئی بات نہیں کرتا۔ (۳۱۲)عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَصقَالَ:قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّکَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ :(( لَا أَقُوْلُ إِلَّا حَقًّا))۔[2] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا: یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مذاق(بھی)کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں حق کے سوا(کچھ نہیں)کہتا۔ (۳۱۳)عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیُدْلِعُ لِسَانَہٗ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، فَیَرَی الصَّبِيُّ حُمْرَۃَ لِسَانِہٖ فَیَبْھَشُ إِلَیْہِ۔[3]
[1] ضعیف، أبوالشیخ ص۸۵ الطبراني فی الأوسط:۶۷۶۰ من حدیث ھشام بن عمار بہ، فیہ عبداللّٰه بن یزید البکري ذاھب۔ [2] حسن، الترمذي: ۱۹۹۰ والشمائل: ۲۳۶۔ [3] سندہ حسن، أبوالشیخ ص۳۸۶۔[السنۃ:۳۶۰۳]