کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 198
الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَائَ نِی الَّذِيْ سَمِعْتُ صَوْتَہٗ فَبَشَّرَنِيْ؛ نَزَعْتُ لَہٗ ثَوْبِيْ فَکَسَوْتُہٗ إِیَّاھُمَا بِبُشْرَاہُ؛ وَاللّٰہِ مَا أَمْلِکُ غَیْرَھُمَا یَوْمَئِذٍ، وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَیْنِ فَلَبِسْتُھُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَتّٰی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جَالِسٌ حَوْلَہُ النَّاسُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ وَھُوَ یَبْرُقُ وَجْھُہٗ مِنَ السُّرُوْرِ: أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْکَ مُنْذُ وَلَدَتْکَ أُمُّکَ، قُلْتُ:أَمِنْ عِنْدِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَمْ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ؟ قَالَ :(( لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ))وَکَانَ رَسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْھُہٗ، کَأَنَّہٗ قِطْعَۃُ قَمَرٍ، وَکُنَّا نَعْرِفُ ذٰلِکَ مِنْہُ۔صحیح سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا اپنا واقعہ بیان فرماتے تھے کہ آپ نے یہ غزوہ اس وقت کیا جب پھل اور سائے پک گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مسلمان، سامان جہاد تیار کررہے تھے میں بھی آپ کے ساتھ نکلنے کے لیے آج کل کرتا رہا۔پھر لوٹ آتا اور کچھ نہ کرتا(میری)یہی حالت رہی حتیٰ کہ وہ جلدی جلدی جہاد کے لیے چلے گئے۔پھر جب مجھے پتا چلا کہ(مجاہدین کا)قافلہ چلا گیا ہے تو مجھے غم نے آلیا۔میں جھوٹ موٹ کے وہ طریقے(اور بہانے)سوچنے لگا جن کے ذریعے کل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے بچ سکتا تھا۔میں نے اپنے گھر کے سمجھداروں سے بھی مشورہ کیا۔پھر جب مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرہے ہیں تو باطل بہانے مجھ سے دور ہوگئے اور میں نے جان لیا کہ میں جھوٹ بول کر آپ کو دھوکا نہیں دے سکوں گا۔میں نے سچ بولنے کا ارادہ کرلیا۔ پھر صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم(لمبے)سفر سے تشریف لاتے تو مسجد جا کر پہلے دو رکعتیں پڑھتے پھر لوگوں کے لیے بیٹھ جاتے۔جب آپ نے ایسا کیا تو(جہاد سے)پیچھے رہنے والے آگئے اور قسمیں کھا کھا کر اپنے عذر بیان کرنے لگے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذروں(اور بہانوں)کو سب کے سامنے قبول کرلیا۔ان سے بیعت لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دلی بھیدوں کو اللہ کے حوالے کیا۔پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو سلام کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے سے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: ادھر آؤ۔میں چلتے ہوئے آیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں کس چیز نے(جہاد سے)پیچھے رکھا ہے؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں،(خریدی تھی)یقیناً اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہوتا تو بہانے کے