کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 192
پھر اللہ نے آپ کی مدد فرشتوں کے ساتھ فرمائی۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ اس دن مسلمان آدمی، مشرکوں میں سے کسی آدمی کے پیچھے(مارنے کے لیے)دوڑتا تو اپنے اوپر کوڑے کی آواز سنتا اور ایک گھڑ سوار کہہ رہا ہوتا: ’’حیزوم آگے آؤ،، وہ جب اپنے سامنے مشرک کی طرف دیکھتا تو اسے(زمین پر)گرا ہوا پاتا۔اس مشرک کا چہرہ اور ناک اس کوڑے کی ضرب سے پھٹ چکا ہوتا۔بہت سے اس طرح ڈھیر ہوگئے(اور اس بات کو کئی لوگوں نے دیکھا)تو ایک انصاری نے آکر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سارا واقعہ بتایا۔آپ نے فرمایا: تونے سچ کہا یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے(جو اللہ نے نازل فرمائی ہے)اس دن مسلمانوں نے ستر مشرکین قتل کئے اور ستر کو قیدی بنا لیا۔پھر جب قیدی بنالیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہا سے فرمایا: تمھارا ان قیدیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!وہ ہمارے خاندان کے اور چچازاد ہیں۔میرا خیال ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں۔تو ہمیں کافروں پر قوت حاصل ہوجائے گی۔پھر ہوسکتا ہے کہ اللہ انھیں اسلام کی ہدایت نصیب فرمادے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ!تمھارا کیا خیال ہے؟(عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا)میں نے کہا: نہیں، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ! کی قسم، میری رائے ابوبکر والی رائے نہیں ہے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ انھیں ہمارے حوالے کردیں تاکہ ہم ان کی گردنیں ماردیں۔عقیل کو علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں تاکہ وہ اس کی گردن کاٹ دیں اور میرا فلاں رشتہ دار میرے حوالے کریں تاکہ میں اس کی گردن ماردوں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے سرداروں اور بڑوں میں سے ہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری رائے کے بجائے ابوبکر کی رائے اختیار کی۔دوسرے دن جب میں آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رورہے تھے۔میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!مجھے بتائیں کہ آپ اور آپ کا ساتھی کس چیز کی وجہ سے رو رہے ہیں؟ اگر رونے کی چیز ہو تو میں بھی روؤں اور اگر رو نہ سکوں تو رونے کی صورت ہی بنالوں تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ(اللہ کی طرف)سے مجھے ان لوگوں پر عذاب کی دھمکی ملی جنھوں نے قیدیوں کے بدلے فدیہ قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا۔یہ دھمکی اس قریب والے درخت سے بھی زیادہ قریب تھی۔پھر اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ ط ﴾
’’کسی نبی کے لیے مناسب نہیں کہ اس کے قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں کافروں کو نیست