کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 167
کہا)میں آپ کے پاس جاتا تاکہ خلط ملط ہو کر دیکھوں کہ آپ کی بردباری کیسی ہے؟
ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(اپنی بیویوں کے)حجروں سے باہر آئے۔آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔ایک آدمی اپنی سواری پر سفر کرتا ہوا آیا گویا وہ بدو تھا اور کہا: یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!بنوفلاں کے گاؤں والے مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ مسلمان ہوں گے تو انھیں کھلا اور بہت زیادہ رزق ملے گا اور(اب)انھیں خشک سالی، قحط اور سختی نے آکر تنگ دست کردیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ جس طرح وہ لالچ میں آکر مسلمان ہوئے تھے، اسی طرح وہ لالچ کی وجہ سے اسلام سے نکل نہ جائیں۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کی مدد کے لیے کچھ(سامان)بھیجیں تو زید بن سعنہ نے کہا: میں آپ سے اتنے دیناروں کے بدلے(کھجور کے)اتنے وسق خریدتا ہوں آپ میرے ساتھ سودا کریں۔
میں نے اپنے بٹوے والی پٹی کھول کر آپ کو اسی دینار دئیے تو آپ نے وہ دینار اس آدمی کو دے دئیے اور فرمایا: ان کے پاس جلدی جاؤ اور ان کی مدد کرو۔(کھجوریں خریدنے کے جس وقت پر ہمارا اتفاق ہوا تھا)اس وقت سے ایک یا دو یا تین دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں ایک جنازے کے لیے باہر آئے۔آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور دوسرے صحابہ تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور دیوار کے قریب ہوئے تو میں نے آپ کی چادر کو انتہائی سختی سے کھینچا حتیٰ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے سے گر گئی۔پھر میں نے انتہائی کھردرا اور سخت منہ بنا کر آپ کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!کیا تم میرا قرضہ نہیں دیتے؟
واللہ مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ بنوعبدالمطلب لین دین کے سست(اور کھوٹے)ہیں اور(مدینہ والو!)مجھے تمھارا تو علم تھا!
زید نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ٹانگیں(غصے سے)کانپنے لگیں جس طرح گول چیز گھومتی ہے پھر(عمر رضی اللہ عنہ نے)کہا: اے اللہ کے دشمن! تو رسو ل اللہ سے ایسی بات کررہا ہے؟ اور وہ سلوک کررہا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں اوروہ کچھ کہہ رہا ہے جو ہم سن رہے ہیں۔پس اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے اگر آپ کی ناراضی کا ڈر نہ ہوتا تو تیرا سر اتار دیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکون اور محبت سے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ رہے تھے پھر مسکرائے اور کہا: ہم دونوں کے ساتھ دوسرا سلوک بہترہے۔مجھ سے کہو کہ میں قرضہ اچھے طریقے سے ادا کردوں اور اس سے کہو کہ اچھے طریقے سے اپنا قرضہ مانگے۔