کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 162
فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: السَّامُ عَلَیْکُمْ، وَلَعَنَکمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:((مَھْلًا یَا عَائِشَۃُ! عَلَیْکِ بِالرِّفْقِ وَإِیَّاکَ وَالْعُنْفَ أَوِ الْفُحْشَ))، قَالَتْ:لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا؟ قَالَ:(( أَوَلَمْ تَسْمَعِيْ مَا قُلْتُ؟ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِيْ فِیْھِمْ، وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِيَّ))۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے تو کہا: السام علیک(آپ پر موت ہو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیکم یعنی اور تم پر بھی ہو، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے(یہودیوں سے)کہا: السام علیکم اور تم پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جاؤ اے عائشہ! تمھیں نرمی کرنی چاہیے سختی اورفُحش سے بچنا چاہئے۔ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے)فرمایا: آپ نے نہیں سنا کہ انھوں نے کیا کہا: فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا جو میں نے جواب دیا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی۔میری دعا ان کے بارے میں قبول ہوتی ہے اور ان کی دعا میرے بارے میں قبول نہیں ہوتی۔ (۲۲۳)عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابص لَمَّا مَاتَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ اُبَيِّ ابْنُ سَلُوْلٍ دُعِيَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِیُصَلِّيَ عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَثَبْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَتُصَلِّيْ عَلَی ابْنِ أُبَيٍّ، وَقَدْ قَالَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا:کَذَا وَکَذَا ، أُعَدِّدُ عَلَیْہِ قَوْلَہٗ۔فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَقَالَ:أَخِّرْ عَنِّيْ یَا عُمَرُ! فَلَمَّا أَکْثَرْتُ عَلَیْہِ قَالَ:(( إِنِّيْ خُیِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّيْ إِنْ زِدْتُّ عَلَی السَّبْعِیْنَ فَغُفِرَلَہٗ لَزِدْتُّ عَلَیْھَا))قَالَ:فَصَلّٰی عَلَیْہِ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ یَمْکُثْ إِلَّا یَسِیْرًا؛ حَتّٰی نَزَلَتِ الْآیَتَانِ مِنْ بَرَائَ ﴿ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا ﴾ إِلٰی ﴿وَھُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾۔صحیح[1] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابیٔ بن سلول مرا تو اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی گئی پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(اس پر جنازہ پڑھنے کے لیے)کھڑے ہوگئے تو میں چھلانگ لگا کر(آگے)آیا اور کہا: ’’یارسول اللہ! کیا آپ ابیٔ کے بیٹے پر جنازہ پڑھتے ہیں؟ اس نے فلاں دن یہ اور وہ کہا تھا، میں اس کی باتیں آپ کو سنانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور کہا: پیچھے ہٹ جاؤ اے عمررضی اللہ عنہ ! جب میں نے بہت باتیں کرلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے(ان لوگوں کے لئے استغفار)کا اختیار دیا گیا
[1] صحیح البخاري، الجنائز باب ما یکرہ من الصلٰوۃ علی المنافقین: ۱۳۶۶ و ۴۶۷۸۔