کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 161
کیا ہے؟ فرمایا: میرے پاس دو آدمی(خواب میں)آئے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا ٹانگوں کے پاس۔ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس آدمی کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے۔اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ کہا: لبید بن الاعصم(یہودی)نے۔اس نے کہا: کس میں کیا ہے؟ کہا: کنگھی اور کنگھی سے گرے ہوئے بالوں میں اور نر کھجور کے گابھے کے کھوکھلے پیٹ میں، کہا: وہ کہاں(پڑا)ہے؟ کہا: بنی زریق کے کنویں ذروان میں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے پھر لوٹ کر آئے تو کہا: اللہ کی قسم، اس(کنویں)کا پانی گویا مہندی بھگویا ہوا ہے اور اس(کے ارد گرد)کی کھجوریں گویا شیاطین کے سر ہیں۔ میں نے کہا: یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے اسے کیوں نہیں نکالا؟ تو آپ نے فرمایا: مجھے تو اللہ نے شفا دے دی ہے(اور)میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ اس وجہ سے لوگوں میں شر(وفساد)پھیل جائے۔ (۲۲۱)عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ:سَحَرَ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ، قَالَ:فَاشْتَکٰی لِذٰلِکَ أَیَّامًا، قَالَ:فَاَتَاہُ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ، فَقَالَ:إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْیَھُوْدِ سَحَرَکَ فَعَقَدَ لَکَ عُقَدًا، فَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلِیًّا فَاسْتَخْرَجَھَا فَجَائَ(بِہَا)فَجَعَلَ یَحُلُّ عُقْدَۃً، وَجَدَ لِذٰلِکَ خِفَّۃً، فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَاَنَّمَا أُنْشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَمَا ذَکَرَ ذٰلِکَ لِلْیَھُوْدِيِّ، وَلَا رَآہُ فِيْوَجْھِہٖ قَطُّ۔[1] سیدنا زید بن ارقم( رضی اللّٰہ عنہ)نے فرمایا کہ ایک یہودی آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا۔اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دن بیمار رہے۔پھر آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے تو کہا: بے شک ایک یہودی آدمی نے آپ پر گانٹھیں لگا کر جادو کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو وہ اسے باہر نکال کر آپ کے پاس لے آئے۔آپ ایک ایک گانٹھ کھولتے رہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرمی محسوس فرمائی۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوگئے گویا رسیوں سے کھل کر آزاد ہوئے ہیں۔اس بات کا نہ یہودی سے تذکرہ کیا گیا اور نہ اس(یہودی)نے کبھی اس کا اظہار آپ ک چہرے سے دیکھا۔ (۲۲۲)عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ الْیَھُوْدَ أَتَوُا النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالُوْا: اَلسَّامُ عَلَیْکَ ، قَالَ:((وَعَلَیْکُمْ))۔[2]
[1] صحیح، أخرجہ أبوالشیخ ص۴۶، ۴۷ النسائي(۷/۱۱۲، ۱۱۳ح ۴۰۸۵)من حدیث أبيمعاویۃ الضریر بہ وللحدیث شواھد عند البخاريومسلم وغیرھما [2] صحیح البخاري، الأدب باب ۳۸ ح ۶۰۳۰ مسلم:۲۱۶۵۔[السنۃ:۳۳۱۳]