کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 156
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔پھر فرمایا: تم پلاؤ، پھر پانی روک لو، حتیٰ کہ پانی اوپر والے کناروں تک پہنچ جائے۔پس آپ نے اس وقت زبیر کو اس کا پورا حق دے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے جو فیصلہ تھا اس میں زبیر اور انصاری(دونوں)کے لیے وسعت تھی۔ (۲۱۲)عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَسَمَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَسْمًا فَقَالَ رَجُلٌ:مَا أُرِیْدَ بِہٰذَا وَجْہَ اللّٰہِ فَأَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ فَتَمَعَّرَ وَجْھُہٗ ثُمَّ قَالَ:(( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِيَ بِمَا ھُوَ أَشَدُّ مِنْ ھٰذَا فَصَبَرَ))۔صحیح[1] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(ایک دفعہ غنیمت)کا مال تقسیم کیا تو ایک آدمی نے کہا: اس تقسیم کے ساتھ اللہ کی رضا مندی مطلوب نہیں۔تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ بات آپ کو بتائی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا پھر آپ نے فرمایا: اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے۔انھیں اس سے زیادہ تکلیف دی گئی ہے پھر انھوں نے صبر کیا۔ (۲۱۳)عَنْ أَنَسٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:کُسِرَتْ رَبَاعِیَّۃُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ فَجَعَلَ الدَّمُ یَسِیْلُ عَلٰی وَجْھِہٖ وَھُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ وَیَقُوْلُ :(( کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ إِلٰی رَبِّہِمْ))۔فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی:﴿ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ ﴾۔صحیح[2] سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: احد والے دن، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دونوں دانت شہید ہوگئے اور آپ کا سر مبارک زخمی ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر خون بہہ رہا تھا اور آپ اسے پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: وہ قوم کس طرح کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا چہرہ خون سے رنگا ہے حالانکہ وہ انھیں ان کے رب کی طرف دعوت دے رہا ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ ﴾(سورۃ اٰل عمران:۱۲۸) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں ہے۔‘‘ (۲۱۴)عَنْ جُنْدُبٍ یَقُوْل: بَیْنَمَا النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَمْشِيْ إِذْ أَصَابَہٗ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِیَتْ أَصْبَعُہٗ، فَقَالَ:[3]
[1] متفق علیہ البخاري، الأدب باب من أخبر صاحبہ بما یقال فیہ:۶۰۵۹ من حدیث سفیان الثوري بہ مسلم:۱۰۶۲ من حدیث الأعمش بہ۔[السنۃ:۳۶۷۱] [2] صحیح، أخرجہ أبوالشیخ ص۷۲، ۷۳ والترمذي: ۳۰۰۲، ۳۰۰۳ وابن ماجہ:۴۰۲۷ وغیرھما من حدیث حمید الطویل بہ ولہ شواھد عند البخاري(۴۰۶۹)ومسلم(۱۷۹۱)وغیرہما۔ [3] صحیح البخاري، الأدب باب ما یجوز من الشعر: ۶۱۴۶ مسلم: ۱۷۹۶۔[السنۃ: ۳۰۴۱]