کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 155
(۲۱۰)عَنْ أَنَسٍ رضى اللّٰه عنہ قَالَ:کُنْتُ أَمْشِيْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَّجْرَانِيٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ، فَأَدْرَکَہٗ أَعْرَابِيٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَائِہٖ جَبْذَۃً شَدِیْدَۃً حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَدْ أَثَّرَتْ بِہَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ، ثُمَّ قَالَ:یَا مُحَمَّدُ مُرْلِيْ مِنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ، فَالْتَفَتَ إِلَیْہِ رَسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ثُمَّ ضَحِکَ، ثُمَّ أَمَرَ لَہٗ بِعَطَائٍ۔صحیح[1] سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم(کے جسم)پر سخت کنارے والی نجرانی چادر رکھی ہوئی تھی۔پھر آپ کو ایک اعرابی ملا جس نے آپ کی چادر(آپ کی گردن کے ساتھ لپیٹ کر اس)سے بہت شدید جھٹکا دیا حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر(سخت جھٹکے کی وجہ)سے اس چادر کے کنارے کا نشان دیکھا۔پھر اس اعرابی نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے میرے لیے حکم دیں(کہ مجھے بھی دیا جائے)تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا پھر ہنسے۔پھر اسے دینے کا حکم دیا۔ (۲۱۱)عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ الزُّبَیْرَ کَانَ یُحَدِّثُ أَنَّہٗ خَاصَمَ رَجُلًا مِّنَ الْأَنْصَارِ قَدْ شَھِدَ بَدْرًا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِيْ شِرَاجٍ مِّنَ الْحَرَّۃِ کَانَا یَسْقِیَانِ بِہٖ کِلاَھُمَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لِلزُّبَیْرِ:(( اسْقِ یَا زُبَیْرُ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی جَارِکَ))، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ:یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ، فَتَلَوَّنَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثُمَّ قَالَ:(( اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْجُدُرَ))۔فَاسْتَوْعٰی رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حِیْنَئِذٍ حَقَّہٗ لِلزُّبَیْرِ۔وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَبْلَ ذٰلِکَ أَشَارَ عَلَی الزُّبَیْرِ بِرَأْيٍ سَعَۃً لَّہٗ وَلِلْأَنْصَارِيِّ۔صحیح[2] سیدنا عروہ بن زبیر حدیث بیان کرتے تھے کہ(ان کے والد)زبیر( رضی اللّٰہ عنہ)کا حرہ کے پانی پر ایک انصاری سے جھگڑا ہوگیا جو بدری صحابی تھا۔وہ دونوں اس پانی سے(اپنے کھیتوں کو)پلاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے فرمایا: اے زبیر! تم(اپنے کھیتوں کو)پانی پلاؤ پھر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دوتو انصاری کو غصہ آگیا وہ کہنے لگا: یارسول اللہ! یہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی تھا(اس لیے آپ نے یہ فیصلہ کیا ہے)؟
[1] صحیح البخاري، اللباس باب البرد والجرۃ والشملۃ: ۵۸۰۹ مسلم، الزکاۃ باب اعطاء من سأل بفحش وغلظۃ: ۱۵۰۷۔[السنۃ: ۳۶۷۰] [2] صحیح البخاري، الصلح باب إذا أشار الإمام بالصلح:۲۷۰۸ مسلم، الفضائل باب وجوب اتباعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۲۳۵۷۔[السنۃ:۲۱۹۴]