کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 126
سیدنا سلمہ(بن الاکوع)رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حنین کی جنگ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر لڑی۔جب ہم دشمن کے مدمقابل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام پیچھے ہٹ گئے۔جب دشمنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ خچر سے نیچے اتر آئے پھر زمین سے ایک مٹھی لی اور دشمنوں کی طرف منہ کرکے فرمایا:(دشمنوں کے)چہرے بدشکل اور خوفزدہ ہوگئے۔‘‘ ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں میں اس مٹھی کی مٹی بھر گئی تو وہ منہ پھیر کر بھاگے اللہ نے انھیں شکست دے دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غنیمتیں مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ (۱۴۲)عَنْ حُذَیْفَۃَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ:لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیْلَۃَ الْأَحْزَابِ؛ وَأَخَذَتْنَا رِیْحٌ شَدِیْدٌ وَقْرٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( الَاَ رَجُلٌ یَأْتِیْنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَہُ اللّٰہُ مَعِيَ فِی الْجَنَّۃِ))۔فَلَمْ یُجِبْہُ أَحَدٌ۔فَقَالَ:قُمْ یَا حُذَیْفَۃُ اذْھَبْ فَأْتِنِيْ بِخَبَرِ الْقَوْمِ، وَلَا تَذْعَرْھُمْ عَلَيَّ۔فَلَمَّا وَلَّیْتُ مِنْ عِنْدِہٖ جَعَلْتُ کَأَنَّمَا أَمْشِيْ فِيْ حَمَّامٍ حَتّٰی أَتَیْتُھُمْ، فَرَأَیْتُ اَبَا سُفْیَانَ یَصْلِيْ ظَھْرَہٗ بِالنَّارِ، فَوَضَعْتُ سَہْمًا فِيْ کَبَدِ الْقَوْسِ، فَأَرَدْتُّ أَنْ أَرْمِیَہٗ، فَذَکَرْتُ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم:لَا تَذْعَرْھُمْ عَلَيَّ، وَلَوْ رَمَیْتُہٗ لَأَصَبْتُہٗ، فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِيْ فِيْ مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَیْتُہٗ فَأَخْبَرْتُہٗ خَبَرَ الْقَوْمِ، وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ فَأَلْبَسَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ فَضْلِ عَبَائَ ۃٍ کَانَتْ عَلَیْہِ یُصَلِّيْ فِیْھَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتّٰی أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ قَالَ:(( قُمْ یَا نَوْمَانُ))۔صحیح[1] سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوئہ احزاب کی رات شدید سردی اور تیز ہوا دیکھ چکے ہیں(جب اُس نے)ہمیں آلیا تھا۔رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا کوئی آدمی ہمیں(کافروں کی)قوم کی خبر لا کے دے سکتا ہے؟ اللہ اسے جنت میں میرا ساتھی بنائے گا،، تو کسی نے جواب نہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ!اٹھ کر جاؤ اور مجھے(حملہ آور)قوم کی خبر دو۔اور انھیں ڈرا کر مجھ سے خبردار نہ کرنا۔ پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گیا تو(ایسی گرمی محسوس ہوئی کہ)گویا میں حمام میں چل رہا تھا حتیٰ کہ میں وہاں پہنچ گیا۔دیکھا کہ ابوسفیان نے اپنی پیٹھ آگ کی طرف کررکھی ہے۔میں نے کمان کے وسط میں تیر رکھا اور(ابوسفیان کو)تیر مارنے کا ارادہ کیا پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آگیا کہ
[1] صحیح مسلم، الجھاد باب غزوۃ الأحزاب: ۱۷۸۸۔