کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیل ونہار - صفحہ 114
(۱۲۷)عَنْ إِیَاسٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِيْ غَزْوَۃٍ فَأَصَابَنَا جَھْدٌ، حَتّٰی ھَمَمْنَا أَنْ نَّنْحَرَ بَعْضَ ظَھْرِنَا۔فَأَمَر نَبِيُّ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَجَمَعْنَا تَزْوَادَنَا، فَبَسَطْنَا لَہٗ نِطْعًا فَاجْتَمَعَ زَادُ الْقَوْمِ عَلَی النِّطْعِ، قَالَ:فَتَطَاوَلْتُ لِأَحْزُرَہٗ کَمْ ھُوَ، فَحَزْرَتُہٗ کَرَبْضَۃِ الْغَنَمِ وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً، قَالَ:فَأَکَلْنَا حَتّٰی شَبِعْنَا جَمِیْعًا۔ثُمَّ حَشَوْنَا جُرُبَنَا۔فَقَالَ نَبِيُّ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( ھَلْ مِنْ وَضُوْئٍ؟))۔قَالَ:فَجَائَ رَجُلٌ بِإِدَاوَۃٍ فِیْھَا نُطْفَۃٌ فَاَفْرَغَھَا فِيْ قَدَحٍ، فَتَوَضَّأْنَا کُلُّنَا نُدَغْفَقَہً دَغْفَقَۃً أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً۔قَالَ:ثُمَّ جَائَ بَعْدَ ذٰلِکَ ثَمَانِیَۃٌ فَقَالُوْا: ھَلْ مِنْ طَھُوْرٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:(( فَرَغَ الْوَضُوْئُ))۔صحیح[1] سیدنا سلمہ بن الاکوع( رضی اللّٰہ عنہ)سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو ہمیں بھوک لگ گئی۔حتیٰ کہ ہم نے اپنی بعض سواریوں کو ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ہم نے بچے کھچے کھانے جمع کئے پھر ہم نے اس کے لیے ایک چٹائی بچھا دی تو لوگوں کا سامان چٹائی پر اکٹھا ہوگیا۔میں اندازہ لگانے کے لئے آگے آیا کہ یہ کتنا ہے۔پس میں نے اندازہ لگایا کہ یہ(سارا سامان)بکری کے بیٹھنے کی جگہ کے برابر ہے(بہت ہی تھوڑا ہے)اور ہم چودہ سو تھے۔ پس ہم نے یہ کھایا حتیٰ کہ سب کے سب خوب سیر ہوگئے۔پھر اپنے تھیلے بھرلیے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وضو کا پانی ہے؟(سلمہ رضی اللہ عنہ نے)کہا: ایک آدمی ایک برتن لایا جس میں بہت تھوڑا پانی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسرے برتن میں ڈالا۔پھر ہم سب نے وضو کیا اورخوب پانی بہایا۔ہم چودہ سو تھے۔پھر اس کے بعد آٹھ آدمی آئے اور کہا: کیا وضو کا پانی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کا پانی ختم ہوگیا ہے۔ (۱۲۸)عَنْ جَابِرٍ رضی اللّٰہ عنہ أَنَّ أُمَّ مَالِکٍ کَانَتْ تُھْدِيْ لِلنَّبِيِّا فِيْ عُکَّۃٍ لَھَا سَمْنًا، فَیَاْتِیْھَا بَنُوْھَا فَیَسْأَلُوْنَ الْأُدْمَ لَیْسَ عِنْدَھُمْ شَيْئٌ فَتَعْمِدُ إِلَی الَّذِيْ کَانَتْ تُھْدِيْ فِیْہِ لِلنَّبِيِّ ا، فَتَجِدُ فِیْہِ سَمْنًا۔فَمَازَالَ تُقِیْمُ لَھَا أُدْمَ بَیْتِھَا حَتّٰی عَصَرَتْہُ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ ا فَقَالَ:(( عَصَرْتِھَا؟))۔قَالَتْ:نَعَمْ، قَالَ:(( لَوْتَرَکْتِیْھَا مَا زَالَ قَائِمًا))۔صحیح[2] سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام مالک، ایک ڈبے میں گھی کا تحفہ بھیجتی تھی۔پھر اس کے بیٹے بیٹیاں آتے تو سالن مانگتے۔ان کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔پھر وہ اس(ڈبے)کی طرف جاتی جس میں
[1] صحیح مسلم، اللقطۃ باب استحباب خلط الأزواد إذا قلّت:۱۷۲۹۔ [2] صحیح مسلم، الفضائل باب في معجزات النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم :۲۲۸۰۔