کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 99
’’کیا تم مجھے امان دیتے ہو، کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دوں؟‘‘ ’’فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ۔‘‘ اس کے بعد حرام رضی اللہ عنہ نے ان سے گفتگو شروع کی۔ ’’فَأَوْمَؤُوْا إِلٰی رَجُلٍ، فَأَتَاہُ مِنْ خَلْفِہٖ، فَطَعَنَہٗ۔‘‘[1] انہوں(یعنی کافروں)نے ایک آدمی کو اشارہ کیا، جس نے پیچھے سے ان پر نیزے سے وار کردیا۔ ہمام(جو اس واقعہ کے راویوں میں سے ایک ہیں)نے کہا: ’’أَحْسَبُہٗ حَتّٰی أَنْفَذَہٗ بِالرُّمْحِ۔‘‘ ’’میرا خیال ہے، کہ نیزہ اُن کے جسم میں ایک طرف سے داخل ہوا اور دوسری طرف سے نکل گیا۔‘‘ انہوں(یعنی حرام رضی اللہ عنہ)نے کہا: اَللّٰہُ أَکْبَرُ!فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔[2] ’’اللہ اکبر!ربِ کعبہ کی قسم!میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ یہ تھی وہ سچی محبت، جس کی وجہ سے حضرت حرام رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ اعتقاد و یقین تھا، کہ محبوب کے پیغام کے پہنچانے میں جان قربان کرنا کامیابی اور کامرانی ہے۔ ربِ کعبہ کی قسم!حقیقی کامیابی تو یہی ہے۔اے اللہ!ہمیں اس کامیابی سے محروم نہ رکھنا، آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
[1] تاریخ طبری میں ہے: حرام رضی اللہ عنہ اُن کی طرف گئے اور اُن سے کہا: ’’اے مؤتہ کے کنویں والو! میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ۔‘‘ ایک آدمی گھر سے نکلا اور اُن کے جسم کے ایک پہلو میں نیزے سے وار کیا، جو دوسرے پہلو سے باہر نکل گیا۔(تاریخ الطبري ۷/۳۸۸)۔ [2] صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع، …، جزء من رقم الحدیث ۴۰۹۱، ۷/۳۸۵-۳۸۶۔