کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 88
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور نافرمانی ہے۔اُن کے اطاعت گزاروں کے لیے دنیاہی میں سرفرازی، سربلندی اور زمین میں قوت و اقتدار کا پانا اور نافرمانوں کے لیے ذلّت اور رُسوائی ہے۔ شاید کہ امتِ مسلمہ اس حقیقت کو سمجھ کر اور اس کا اہتمام کرکے، پستیوں سے نجات حاصل کرلے اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے۔ ۷:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تے اُتارتے دیکھ کر جوتے اُتارنے میں جلدی کرنا: کسی کو چاہنے والا اس کے لبوں سے امر و نہی(کرو، نہ کرو)کے الفاظ کا انتظار نہیں کرتا۔وہ تو اپنے محبوب کی حرکات و سکنات کو شوق و محبت سے ملاحظہ کرتا رہتا ہے۔وہ اس کے چہرے کے تغیرات کو پڑھنے میں مگن رہتا ہے، اُس کی آنکھوں کے اشاروں کو سمجھنا، اُس کا محبوب ترین مشغلہ ہوتا ہے۔وہ یہ سب کچھ اِس لیے کرتا ہے، تاکہ اپنے محبوب کی پسند اور ناپسند سے آگاہ ہو کر، اُس کے مرغوب کام سر انجام دے اور اُس کی ناپسندیدہ باتوں سے دُور ہوجائے۔ حبیبِ کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے چاہنے والوں کی کیفیت اس اعتبار سے بہت ہی بلند تھی۔انہوں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت کی، کہ دشمن بھی پکار اٹھا: ’’مَا رَأَیْتُ فِيْ النَّاسِ أَحَدًا یُحِبُّ أَحَدًا کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[1] [’’میں نے لوگوں میں سے کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جیسی محبت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو اُن کے ساتھ ہے۔‘‘] وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے اوامر و نواہی کی تعمیل پر اکتفا نہ کرتے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حرکات و سکنات کو محبت، عقیدت، احترام اور شوق سے
[1] ملاحظہ ہو: سیرۃ ابن ہشام ۳/۹۵۔یہ الفاظ ابوسفیان نے مسلمان ہونے سے پہلے حضرت زید بن دَثِنَہ رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کے موقع پر کہے۔