کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 87
انہیں اس بات کی قطعاً پروا نہ تھی، کہ اس میں ظاہری طور پر ان کے لیے خسارہ ہے یا نفع۔ سابقہ بیان کردہ واقعہ میں[اسلامی فوج کا رومی سرحد سے دور ہٹنا] بظاہر ان کے لیے مفید نہ تھا، لیکن محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے لیے، وہ اس قسم کے حساب کتاب کے قائل نہ تھے۔ آج کل کے کمزور یقین اور ناقص عقل والے نام نہاد مسلمانوں کی طرح ان کے ہاں اتباع حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تفریق نہ تھی، کہ یہ سنت معمولی اور حقیر ہے، اس لیے اُسے چھوڑ دیا جائے اور دوسری سنت اہم اور ضروری ہے، لہٰذا صرف اُس کو کرلیا جائے۔راہِ سنت سے فرار کے لیے وہ ان حیلہ سازیوں سے کوسوں دور تھے۔وہ صرف اسی بات سے آشنا تھے، کہ حبیبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے۔اس سے سرِ مو انحراف انہیں گوارا نہ تھا۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا، جب کہ وہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکے تھے: ’’وَ جُعِلَ الذِّلَّۃُ وَ الصَّغَارُ عَلٰی مَنْ خَالَفَ أَمْرِيْ۔‘‘[1] ’’میرے حکم کی مخالفت کرنے والوں پر ذلّت اور رسوائی مسلط کی گئی ہے۔‘‘ انہوں نے اس فرمانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف سُن رکھا تھا، بلکہ اسے دل کی گہرائی میں اتار رکھا اور سینوں پر ثبت کر رکھا تھا۔زندگی کے کسی بھی پہلو اور موڑ پر اسینگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ کاش!امتِ اسلامیہ اس حقیقت کا ادراک کرلے، کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عزت و ذلّت اور فتح و ہزیمت کو کچھ باتوں سے وابستہ کر رکھا ہے۔اُن میں سے ایک اہم بات
[1] اس حدیث کو امام احمد نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: المسند، جزء من رقم الحدیث ۵۱۱۵، ۷/۱۲۲)۔شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۷/۱۲۲)۔