کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 72
وَ قُلْ لِقَوْمِيْ الْأَنْصَارِ: ’’لَا عُذْرَ لَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَنْ یَخْلُصَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم، فِیْکُمْ شُفْرٌ یَطْرِفُ۔‘‘ ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام اور آپ پر سلام۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میری طرف سے عرض کرنا:’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!میں جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔‘‘ اور میری قوم انصار سے کہنا:’’اگر تم میں سے ایک بھی آنکھ کے جھپکتے ہوئے(یعنی تمہاری زندگی میں)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک دشمن پہنچ گئے، تو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔‘‘ انہوں(یعنی زید رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا: ’’وَ فَاضَتْ نَفْسُہٗ۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘ ’’پھر اُن کی روح اُن کے جسم سے پرواز کرگئی۔رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔‘‘[1] اللہ اکبر!زندگی کے آخری لمحات میں اس سچے محب کو کس بات کی فکر دامن گیر تھی؟ اُس وقت اُنہیں کس بات کا سب سے زیادہ اہتمام تھا؟ دنیا، اہل و عیال اور مال و متاع سے جدا ہوتے وقت، انہوں نے اپنی قوم کس بات کی وصیت کی؟ جس بات کی انہیں فکر تھی، وہ اپنے محبوب اور رب العالمین کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی تھی۔
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۲۰۱۔نیز ملاحظہ ہو: موطأ الإمام مالک، کتاب الجہاد، باب الترغیب فی الجہاد، رقم الروایۃ ۴۱، ۲/۴۶۵۔۴۶۶؛ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ۳/۳۸۔۳۹؛ و السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ للدکتور أکرم ضیاء العمري ۲/۳۸۶۔امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح] اور حافظ ذہبی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: المستدرک ۳/۲۰۱؛ و التلخیص ۳/۲۰۱)۔