کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 55
أَحَبَّ الْأَیَّامِ وَ اللَّیَالِيْ إِلَيَّ أَقْرَبُہَا مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[1] ’’جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آپہنچا، تو دریافت کرنے لگے: ’’آج کون سا دن ہے؟‘‘ انہوں(گھر والوں)نے جواب دیا:’’سوموار‘‘ فرمایا:’’اگر آج رات میرا انتقال ہو گیا، تو کل تک مجھے مؤخر نہ کرنا(یعنی میری تجہیز و تکفین کل پر نہ ڈالنا)۔بلاشبہ سارے دنوں اور راتوں سے وہ دن اور رات مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ اللہ اکبر!حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں دنوں اور راتوں کی محبت کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا قُرب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چاہنے والے اُن سے اپنے پیار میں، اُن کے دیدار کے شوق میں، اُن کی رفاقت کی تڑپ میں، اُن کے حصولِ دیدار کی خوشی میں، اُن کی صحبت کے پانے کی مسرت میں، اُن کی ہم نشینی کو سب باتوں پر ترجیح دینے میں، اُن کی ہمسائیگی کے کھوجانے کے غم اور ان کی جدائی کے صدمے میں کس طرح تھے؟ اب سوال یہ ہے، کہ ان سب پہلوؤں کے اعتبار سے ہم کیسے ہیں؟ کیا ہم نے اسی قسم کی محبت کا رشتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے اور چیزوں سے قائم نہیں کر رکھا؟ کیا ایسا ہی ہمارا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اور چیزوں سے نہیں ہوچکا؟
[1] المسند، رقم الحدیث ۴۵، ۱/۱۷۳۔شیخ احمد شاکر نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: ہامش المسند ۱/۱۷۳)۔