کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 50
سلام کہتا ہے۔‘‘ میرے لیے امیر المومنین کا لقب استعمال نہ کرنا، کیونکہ میں آج مومنوں کا امیر نہیں رہا اور اُن سے کہنا: ’’عمر بن خطاب آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے پڑوس میں دفنائے جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔‘‘ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کہا اور اجازت طلب کی، پھر ان کے ہاں داخل ہوئے، تو وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔عرض کی: ’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور اپنے دونوں ساتھیوں کے پڑوس میں دفنائے جانے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے جواب میں کہا: ’’کُنْتُ أُرِیْدُہٗ لِنَفْسِيْ، وَ لَأَوْثِرَنَّہٗ بِہِ الْیَوْمَ عَلٰی نَفْسِيْ۔‘‘ ’’میں نے یہ جگہ اپنے لیے رکھی تھی۔لیکن آج انہیں اپنے پر ترجیح دیتی ہوں۔‘‘ جب وہ واپس آئے، تو کسی نے کہا: ’’ہٰذَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عُمَرَ قَدْ جَائَ۔‘‘ ’’یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما واپس پلٹ آئے ہیں۔‘‘ انہوں(عمر رضی اللہ عنہ)نے فرمایا: ’’اِرْفَعُوْنِيْ۔‘‘ ’’مجھے اٹھاؤ۔‘‘ ایک آدمی نے اپنی طرف سے سہارا دے کر انہیں اٹھایا، تو دریافت کیا: