کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 48
انصار اندر والے اور لوگ باہر والے ہیں۔(انصار تو قریبی ہیں اور لوگ دور کے ہیں)۔ میرے بعد تم اپنے بارے میں بخل پاؤ گے، پس صبر کرنا، یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے ملاقات کرو۔‘‘[1] حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں: ’’اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْأَنْصَارَ، وَ أَبْنَائَ الْأَنْصَارِ، وَ أَبْنَائَ أَبْنَائِ الْأَنْصَارِ۔‘‘ [’’اے اللہ!انصار پر، انصار کے بیٹوں پر اور انصار کے پوتوں پر رحم فرمائیے۔‘‘] انہوں(یعنی ابو سعید رضی اللہ عنہ)نے بیان کیا: ’’فَبَکَی الْقَوْمُ، حَتّٰی أَخْضَلُّوْا لِحَاہُمْ، وَ قَالُوْا:’’رَضِیْنَا بِرَسُوْلٍ صلي اللّٰهُ عليه وسلم قِسْمًا وَ حَظًّا۔‘‘[2] ’’لوگ اس قدر روئے، کہ ان کی داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور انہوں نے کہا:’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قسمت اور نصیب میں پاکر راضی ہوئے۔‘‘
[1] صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الطائف في شوال سنۃ ثمان، -، رقم الحدیث ۴۳۳۰، ۸/۴۷۔ [2] فتح الباري ۸/۵۲۔