کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 47
’’اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ أَمَنُّ۔‘‘ ’’اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ احسان فرمانے والے ہیں۔‘‘[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَوْ شِئْتُمْ قُلْتُمْ:’’جِئْتَنَا کَذَا وَ کَذَا۔‘‘ أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّاۃِ وَ الْبَعِیْرِ، وَ تَذْہَبُوْنَ بِالنَّبِيِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم إِلٰی رِحَالِکُمْ؟ لَوْلَا الْہِجْرَۃُ لَکُنْتُ اِمْرئًا مِنَ الْأَنْصَارِ۔ وَ لَوْ سَلَکَ النَّاسُ وَادِیًا وَ شِعْبًا لَسَلَکْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَ شِعَبَہَا۔ اَلْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَ النَّاسُ دِثَارٌ۔ إِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِيْ أَثْرَۃً، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوْنِيْ عَلَی الْحَوْضِ۔‘‘ ’’اگر تم چاہتے، تو کہہ سکتے تھے:’’آپ بھی تو ہمارے پاس ایسی ہی حالت و کیفیت میں آئے تھے۔‘‘[2] ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں، کہ لوگ بکریاں اور اونٹ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاؤ؟ اگر ہجرت نہ ہوتی، تو میں انصار ہی میں سے ہوتا۔ لوگ کسی بھی وادی کا رخ کریں، میں تو انصار ہی کی وادی کی طرف جاؤں گا۔
[1] حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے: فَقَالُوْا: ’’مَا ذَا نَجِیْبُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ وَ لِلّٰہِ وَ لِرَسُوْلِہِ الْمَنُّ وَ الْفَضْلُ۔‘‘(فتح الباري ۸/۵۰)۔ [انہوں نے عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ ہر قسم کا احسان اور نوازش، تو اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی سے ہے۔‘‘] [2] امام احمد کی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت میں ہے: ’’أَفَلَا تَقُوْلُوْنَ: ’’جِئْتَنَا خَائِفًا فَآمَنَّاکَ، وَ طَرِیْدًا فَآوَیْنَاکَ، وَمَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ‘‘ فَقَالُوْا: ’’بَلِ الْمَنُّ عَلَیْنَا لِلّٰہِ وَ لِرَسُوْلِہٖ۔‘‘ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۸/۵۱)۔اس کی سند کو حافظ ابن حجر نے [صحیح] قرار دیا ہے)۔ ’’تم کیوں نہیں کہتے: ’’آپ خوفزدہ تشریف لائے، ہم نے آپ کو امن دیا۔ آپ کو آپ کی بستی سے نکالا گیا، ہم نے آپ کو پناہ دی۔ آپ بے سہارا ہوکر آئے، ہم نے آپ کی نصرت و تائید کی۔‘‘ انہوں نے جواب میں عرض کیا: ’’اصل بات یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہم پر احسانات ہیں۔‘‘