کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 46
ہے۔امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے۔انہوں نے بیان کیا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے غزوۂ حنین میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مالِ غنیمت عطا فرمایا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مال ان لوگوں میں تقسیم فرمایا، جنہیں اسلام پر ثابت قدم رکھنا مطلوب تھا۔انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔انصار کے دلوں میں یہ بات کھٹکی، کہ لوگوں کو تو مال دیا گیا اور انہیں کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا: ’’یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ!أَلَمْ أَجِدْکُمْ ضَلَّالًا فَہَدَاکُمُ اللّٰہُ بِيْ؟ وَ کُنْتُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ فَأَلَّفَکُمُ اللّٰہُ بِيْ، وَ عَالَۃً فَأَغْنَاکُمُ اللّٰہُ بِيْ۔‘‘ ’’اے گروہ انصار!کیا میں نے تمہیں سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے نہ پایا، پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت عطا فرمائی؟ تم بکھرے ہوئے تھے، میرے ساتھ تمہیں اللہ تعالیٰ نے جوڑ دیا۔ تم تنگ دست تھے، اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ تمہیں تونگری عنایت فرمائی۔‘‘ (راوی نے)بیان کیا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’رسول اللہ … صلی اللہ علیہ وسلم …(کی باتوں)کا جواب دینے میں تمہارے لیے کون سی چیز رکاوٹ بن رہی ہے؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی فرماتے، انصار جواب میں عرض کرتے: