کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 41
انہوں نے جواب دیا:’’ایسے ہی بات ہوئی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں(جو تم نے سمجھا ہے، وہ غلط ہے)۔میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول ہوں۔میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تمہاری طرف ہجرت کی، اب جب تک جینا ہے، تمہارے ساتھ اور مرنا ہے، تو تمہارے ساتھ۔‘‘ انصار روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکے اور عرض کیا: ’’اللہ کی قسم!ہم نے جو بھی کہا، اُس میں آپ کی صحبت کا شدید جذبہ کارفرما تھا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اُن کے رسول- صلی اللہ علیہ وسلم - تمہاری بات کی تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔‘‘ شرحِ حدیث میں علامہ نووی کا بیان: حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلِ مکہ پر شفقت کا مشاہدہ کیا اور یہ بھی دیکھا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل سے ہاتھ روک لیا ہے، تو انہوں نے خیال کیا، کہ اب آپ مکہ(مکرمہ)ہی میں سکونت اختیار فرمالیں گے۔انہیں چھوڑ دیں گے اور مدینہ(طیبہ)کو خیر باد کہہ دیں گے۔یہ بات ان پر گراں گزری۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری صورتِ حال سے آگاہ فرمایا۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ان سے فرمایا، اس کا مفہوم یہ تھا: ’’میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تمہارے شہر کی طرف اس لیے ہجرت کی، کہ اسے اپنا وطن بناؤں۔میں رضائے الٰہی کے حصول کی غرض سے کی ہوئی