کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 36
امام احمد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استقبال کرنے والے انصاری لوگوں کی تعداد قریباً پانچ سو تھی۔وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے۔ ’’اِنْطَلِقَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ۔‘‘[1] ’’آپ دونوں امن کے ساتھ تشریف لائیے۔آپ دونوں ہمارے لیے قابلِ اطاعت ہیں۔‘‘ امام احمد ہی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس استقبال کی تصویر کشی درجِ ذیل الفاظ کے ساتھ کی ہے: ’’وَ مَضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَ أَنَا مَعَہٗ، حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِیْنَۃَ، فَتَلَقَّاہُ النَّاسُ، فَخَرَجُوْا فِی الطَّرِیْقِ وَ عَلَی الْأَجَاجِیْرِ۔فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَ الصِّبْیَانُ یَقُوْلُوْنَ: ’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ!جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم، جَائَ مُحَمَّدٌ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور میں آپ کے ہمراہ تھا، یہاں تک کہ ہم مدینہ(طیبہ)پہنچے۔لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔وہ راستے میں نکل آئے اور چھتوں پر چڑھ گئے۔غلام اور بچے(خوشی سے)راستے میں تیزی سے دوڑتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ!جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم جَائَ مُحَمَّدٌ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘ ’’اللہ اکبر!رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم - تشریف لائے۔محمد- صلی اللہ علیہ وسلم - تشریف لائے۔‘‘ انہوں(یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ)نے(مزید)بیان کیا:
[1] ملاحظہ ہو: الفتح الرباني لترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل ۲۰/۲۹۱۔امام بخاری نے اسے [التاریخ الصغیر] میں روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: فتح الباري ۷/۲۵۱)۔شیخ احمد البنا نے المسند کی روایت کی [سند کو صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: بلوغ الاماني ۲۰/۲۹۲)