کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 14
وَّالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ۔‘‘[1]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا، جب تک، کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والد اور بیٹے سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔‘‘
اس حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی، قسم کھا کر فرمائی، تاکہ امت کے سامنے بات کی پختگی واضح ہوکر، اُن کے دل کی گہرائی میں اتر جائے۔
اس حدیث کے حوالے سے محدّثین کرام نے یہ سوال اٹھایا ہے، کہ
[کیا حدیث میں ذکر کردہ لفظ[وَالِدِہٖ] میں[ماں] داخل ہے؟]
اس بارے میں حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے:
’’اگر لفظ[اَلْوَالِدِ] سے مراد وہ ہے، جس کا بچہ ہو، تو یہ لفظ باپ اور ماں دونوں کو شامل ہے۔
یا جواب میں یوں کہا جائے گا، کہ ماں باپ میں سے، ایک کے ذکر سے، دوسرا خود بخود سمجھا جائے گا۔جس طرح کہ اضداد میں سے ایک کے ذکر سے دوسرا سمجھا جاتا ہے۔(اس جواب کی روشنی میں)[اَلْوَالِدِ] کا ذکر بطورِ مثال کیا گیا ہے اور اس سے مراد انتہائی قریبی افراد ہیں۔اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہو گا:
[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتہائی قریبی لوگوں سے بھی زیادہ پیارے ہوں]۔‘‘ [2]
۳:اہل، مال اور سب لوگوں سے زیادہ محبت کرنے کی فرضیت:
ہر مسلمان پر لازم ہے، کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے اہل و عیال، مال و دولت اور کائنات کے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے ہوں۔اس بات پر درجِ ذیل حدیث
[1] صحیح البخاري، کتاب الإیمان، باب حبّ الرسول رضی اللّٰهُ عنہ من الإیمان، رقم الحدیث ۱۴، ۱/۵۸۔
[2] فتح الباري ۱/۵۹۔