کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 112
ایک تقریر کے ساتھ کرتا ہوں، جو کہ انہوں نے شاہِ اسکندریہ مَقَوقَس کے سامنے کی۔ انہوں نے اس تقریر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کے اُن جذباتِ صادقہ کا اظہار کیا، جو کہ وہ فتنہ کی سرکوبی اور دینِ حق کی سربلندی کی خاطر، اپنی جانوں کو نچھاور کرنے کے بارے میں رکھتے تھے۔انہوں نے فرمایا: ’’وَ مَا مِنَّا رَجُلٌ إِلَّا وَ ہُوَ یَدْعُوْ رَبَّہٗ صَبَاحًا وَ مَسَائً: أَنْ یَرْزُقَہُ الشَّہَادَۃَ، وَ أَ لَّا یَرُدَّہٗ إِلٰی بَلَدِہٖ، وَ لَا إِلٰی أَرْضِہٖ، وَ لَا إِلٰی أَہْلِہٖ، وَ وَلَدِہٖ۔ وَ لَیْسَ لِأَحَدٍ مِنَّا ہَمٌّ فِیْمَا خَلْفَہٗ، وَ قَدْ اسْتَوْدَعَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنَّا رَبَّہٗ أَہْلَہٗ وَ وَلَدَہٗ، وَ إِنَّمَا ہَمُّنَا مَا أَمَامَنَا۔‘‘ ’’ہم میں سے ہر ایک صبح و شام اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ اُسے شہادت نصیب فرمائیں۔ اُسے اُس کے وطن اور اہل و عیال کی طرف واپس نہ لے جائیں۔ ہم میں سے کسی کی بھی منزل پیچھے نہیں۔ ہم سب تو اپنے اہل و عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرچکے ہیں اور ہماری منزل تو آگے ہے۔‘‘[1] قارئین کرام!اب سوال یہ ہے:کیا ہم ایسے ہی ہیں؟
[1] فتوح مصر وأخبارھا ص ۵۴۔