کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کی علامتیں - صفحہ 101
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے دن کے بعد، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے منادی کرنے والے نے اعلان کیا: ’’اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو پورا کیا جائے۔اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے سارے فوجی شہر سے نکل کر، اپنی لشکر گاہ جرف[1] میں پہنچ جائیں۔‘‘ جب خطرناک صورتِ حال کے پیش نظر حضرت اسامہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما سے اپنے لشکر سمیت مدینہ طیبہ رہنے کی اجازت طلب کی، تو انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو لکھا: ’’مَا کُنْتُ لِأَسْتَفْتِحَ بِشَيْئٍ أَوْلٰی مِنْ إِنْفَاذِ أَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔وَ لَأَنْ تَخْطِفُنِيْ الطَّیْرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ ذٰلِکَ۔‘‘[2] ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کے علاوہ کسی بھی اور کام سے(اپنے امورِ خلافت کا)آغاز کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔مجھے کسی اور کام سے ابتدا کرنے کی بجائے،(یہ بات)زیادہ پسند ہے، کہ پرندے مجھے اُچک لے جائیں۔‘‘ جب لشکرِ اسامہ رضی اللہ عنہ کو روکنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر عرب کے قبائل مدینہ طیبہ پر حملہ کردیں گے، تو اُنہوں نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’أَنَا أَحْبِسُ جَیْشًا بَعَثَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔لَقَدْ اجْتَرَأْتَ عَلٰی أَمْرٍ عَظِیْمٍ۔وَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ!لَأَنْ تَمِیْلَ الْعَرَبُ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ أَنْ أَحْبِسَ جَیْشًَا بَعَثَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[3] ’’جس لشکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا، میں اُسے روک دوں!تُو نے
[1] (اَلْجُرْف): جیم کی پیش اور راء کے سکون کے ساتھ۔مدینہ طیبہ سے شام کی جانب تین میل کے فاصلے پر ایک جگہ۔(ملاحظہ ہو: معجم البلدان، رقم ۳۰۵۳، ۲/۱۴۹)۔ [2] تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص ۱۰۰۔ [3] تاریخ الإسلام للذہبي (عصر الخلفاء الراشدین رضی اللّٰهُ عنہم ) ص ۲۰۔۲۱۔