کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 87
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہوگئے اور بہت دیر کی۔ہم (نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے) مسجد میں سوگئے،پھر ہم بیدار ہوئے،پھر ہم سوگئے،پھر ہم بیدار ہوئے۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے۔اور فرمایا: ’’دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔‘‘[1] ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ اس وقت نماز عشاء مدینہ طیبہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی یعنی مسلمان اتنی کم تعداد میں تھے۔ ۱۱۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ عشاء رات گئے ادا کرنا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ’’ ایک رات رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عشاء کی ادائیگی میں معمول سے ہٹ کر تاخیر کی۔یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز؟ عورتیں اور بچے تو سو چکے ہیں۔(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آوازسنی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور سر اقدس سے پانی کے قطرات گر رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نمازِ عشاء کا) صحیح وقت تو یہی ہے۔اگر مجھے اہل ایمان کے لیے یہ مشقت محسوس نہ ہوتی تو میں اس نماز کو اس وقت ادا کرتا۔‘‘[2] ہمارے ناقص اور خود ساختہ مذہبی تصورات کا شاخسانہ ہے کہ ہم ایسے مسائل میں الجھتے ہیں جو سرے سے مسائل ہی نہیں۔جیسا کہ ہمارے ہاں ننگے سر نماز کا مسئلہ ہے۔
[1] صحیح بخاری،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب النوم قبل العشاء لمن غلب،حدیث: ۵۷۰۔ [2] مسند حمیدی،مرویات ابن عباس،حدیث: ۴۹۹۔(صحیح)