کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 86
۹۔اگر نمازی کے سامنے کوئی مرد یا عورت سو رہی ہو؟ اس میں کوئی حرج نہیں کہ نمازی کے سامنے کوئی سو رہا ہو۔نہ تو سونے والے کے لیے ممانعت ہے اور نہ نمازی کی نماز میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے۔بلکہ بعض اوقات سونے والا نمازی کے لیے سترے کا کام بھی دیتا ہے۔ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو جایا کرتی تھی۔میرے پاؤں آپ کے سامنے (پھیلے ہوئے) ہوتے۔جب آپ سجدہ کرتے تو (میرے) پاؤں کو (نماز کے دوران ہی) آہستہ سے دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی۔پھر جب قیام فرماتے تو میں انہیں پھیلا لیتی تھی۔اس زمانے میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔‘‘[1] ام المومنین فرماتی ہیں کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ کے سامنے بچھونے پر آڑے رخ سوئی ہوتی۔جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔‘‘[2] ۱۰۔نماز عشاء سے پہلے سونے کا جواز: اگرچہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔لیکن بوقت ضرورت نماز عشاء سے پہلے بھی سویا جاسکتا ہے۔مگر اس بات کا خیال رہے کہ نماز باجماعت سے محرومی نہ ہو۔جیسا کہدرج ذیل حدیث شریف سے معلوم ہو رہا ہے۔
[1] صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب التطوع خلف المرأۃ،حدیث: ۵۱۳۔ [2] ایضاً،باب الصلاۃ خلف القائم،حدیث: ۵۱۲۔