کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 79
سے) قراء ت مشکل ہو رہی ہو اور اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو (ایسی حالت میں ) اسے سو جانا چاہیے۔‘‘[1] آپ سوچئے کہ وہ کون سا شب زندہ دار ہو گا کہ جسے نیند کے غلبے کی وجہ سے اندیشہ ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو ہی بُرا بھلا کہنے لگے؟ جسے خبر ہی نہیں کہ نماز میں پڑھی جانے والی آیاتِ مبارکہ کا معنیٰ کیا ہے؟ جو تسبیحات و ادعیہ مأثورہ کے مفاہیم سے بے خبر ہے،اس بے چارے عبادت گزار کو اس بات کا کیا خوف کہ وہ اپنے لیے مغفرت طلب کرتے کرتے کچھ اور ہی نہ مانگ لے۔ہاں یہ اس خوش بخت کے لیے ضرور احتیاط کا مقام ہے کہ جسے خوب معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو دُعائیں فرماتے تھے،جو مبارک تسبیحات پڑھتے تھے،ان کا کیا معنٰی و مفہوم ہے۔اس لیے بندۂ مومن کی حتی الوسع جستجو یہی ہونی چاہیے کہ وہ مفاہیم الصلاۃ سے خوب اچھی طرح آگاہ ہو۔پھرمانگنے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے اور پروردگارِ عالم....کہ جن کے سوا کوئی بندہ نواز نہیں ....ان کی عنایات اور جود و کرم کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ان احادیث میں نماز سے مراد فرض نماز نہیں بلکہ رات کی نماز یعنی تہجد ہے اور اس کو مطلقاً کسی اور وقت کی نفلی نماز پر بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔لیکن فرض نماز کے لیے تو حدیث شریف میں اذان میں آتا ہے: ((اَلصَّلوٰۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔)) ’’کہ نماز نیند سے بہتر ہے۔‘‘ [2] دوسرا یہ کہ فرض نماز کے وقت اگر کسی پر نیند کا غلبہ ہو جائے تو وہ وضو کرکے،منہ دھو
[1] سنن ابو داؤد،کتاب الصلاۃ،باب النعاس فی الصلوٰۃ،حدیث:۱۳۱۱۔(صحیح) [2] سنن ابوداؤد،کتاب الصلوٰۃ،باب کیف الاذان،حدیث: ۵۰۰۔یہ حدیث صحیح ہے۔