کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 74
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر درُود بھیجنا ایک مومن کے لیے اعلیٰ درجے کی سعادت اور خوش بختی ہے۔وہ لوگ اپنے نصیب پر جتنا افسوس کریں کم ہے کہ جو درود شریف سے لا پرواہی اختیار کیے ہوئے ہیں۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ،مبارکہ،مطہرہ ہمارے درود کی محتاج نہیں۔یہ تو ہمارے پروردگار نے ہم گناہ گاروں کو موقع فراہم کیا ہے کہ ہم ان کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درُود شریف بھیج کر اپنے گناہوں کو معاف کرالیں اور اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں ہمیں جن غموں اور مصیبتوں کا سامنا ہے،ان سے نجات حاصل کر لیں۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ﴾ (الجمعۃ: ۴) ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس کے مقدر میں ہے کہ جس کو وہ چاہے۔‘‘ احادیث مبارکہ میں درود شریف کے الفاظ ایک سے زائد ہیں۔[1] سب سے افضل درُود وہ ہے جسے درودِ ابراہیمی کہا جاتا ہے اور ہم نماز میں تشہد کے بعد پڑھتے ہیں۔وہ لوگ تو اور زیادہ رُتبے اور اعزاز کے حامل ہیں جو دو تشہد والی نمازوں یعنی ظہر،عصر،مغرب اور عشاء کے اوّلیں تشہد میں بھی درُود شریف پڑھتے ہیں۔ چلتے چلتے یہ بھی سنتے جایئے! بُرا ہو ہمارے فقہی اختلافات کا،جو لوگ نماز کے دونوں تشہد میں درُود شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں،ان کے بارے میں کچھ ’’ اصحاب علم و فضل ‘‘ کہ جنہوں نے دین حنیف کو چند بزرگوں کے اقو ال و آراء کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا ہے،یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ ان کی نماز فاسد ہو گئی۔جرم کیا ہے؟ قصور کیا ہے؟ خطاؤں کا کون سا ہمالیہ ان بے چاروں نے سر کر لیا؟ معلوم ہوا کہ انہوں نے فرض نماز کے اوّلین تشہد
[1] حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’جلاء الافہام‘‘ میں ان احادیث کو جمع فرمایا ہے۔اللہ رب العزت انہیں اس سعادت کے حصول پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب فرمائیں۔