کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 59
عامر رضی اللہ عنہ کی خوش نصیبی کے۔بھلا اس منظر پر رشک کیوں نہ کیا جائے کہ ایک امتی سوار ہوں اور سواری کی مہار سیّد الانبیاء والرسل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تھامی ہو۔ایمان کی حلاوتوں اور روح کی سرشاریوں سے لبریز اس قصے کو امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں لائے ہیں۔اس کے علاوہ صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ قصہ بیان ہوا ہے۔وہیں سے نقل کرکے ہدیہ قارئین ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ’’میں (ایک سفر میں ) ان مختلف پہاڑی راستوں میں سے ایک راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی مہار تھام کر آگے آگے چل رہا تھاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقیب! تم سوار کیوں نہیں ہو جاتے؟میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر سوار ہونے کو بارگاہِ نبوت کے آداب کے منافی سمجھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اے عقیب! تم سوار کیوں نہیں ہو جاتے؟ مجھے اندیشہ ہوا کہ میرا یہ تکلف کہیں نافرمانی میں شمار نہ ہو۔(اسی دوران) رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے نیچے اتر آئے اور میں (آپ کے حکم کی تعمیل میں ) آپ کی سواری پر سوار ہوگیا۔پھر میں پیدل ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقیب! ’’کیا میں تمہیں ایسی دو سورتوں کے بارے میں نہ بتلاؤں جو ان دو سورتوں [1]
[1] ان دو سورتوں …جو لوگ تلاوت کرتے ہیں ....سے مراد شاید سورۂ ہود اور سورۂ یوسف ہیں۔اس لیے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا جب کہ آپ سوار تھے۔میں نے آپ کے پاؤں پر اپنا ہاتھ رکھا اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! مجھے سورۂ ہود اور سورۂ یوسف پڑھا دیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو ہر گز کوئی ایسی سورت نہیں پڑھے گا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ﴿قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ اور ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ سے زیادہ مرتبے والی ہو۔‘‘ سنن نسائی،کتاب الافتتاح،باب الفضل فی قراء ۃ المعوذتین،حدیث: ۹۵۴۔اس کی اسناد صحیح ہیں۔