کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 51
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رات کو آئے تو اس وقت تک ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے کمال شفقت سے فرمایا کہ جس حالت میں ہو،اسی طرح رہو یعنی لیٹے رہو۔پھر میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔(یعنی آپ بھی ہمارے بستر پر بیٹھ گئے) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم نے آج مجھ سے جس بارے میں سوال کیا،کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ جب تم سونے کے لیے اپنے بستر کا رخ کرو تو ۳۴ بار اللّٰہ اکبر،۳۳ بار الحمد للّٰہ اور ۳۳ بار سبحان اللّٰہ پڑھ لیا کرو۔یہ تمہارے لیے اس (غلام) سے بہتر ہے کہ جس کے لیے تم نے مجھ سے سوال کیا تھا۔‘‘[1] اس واقعے پر لمحے بھر کے لیے غور فرمائیے! سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی صاحبزادی تھیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ تھے کہ جن سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دلی محبت تھی۔اب اگر ان کے لیے غلام کا ہونا زیادہ بہتر ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت آقا علیہ السلام اپنی بیٹی کو غلام سے محروم کرتے؟ سیّدہ رضی اللہ عنہا کو لونڈی یا غلام ملتا تو انہیں کس قدر سہولت ہوتی۔ان کے کتنے ہی کام ا ٓسان ہو جاتے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ایسا آسان تر وظیفہ بتلایا،جو زیادہ سے زیادہ دو منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی دیکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غلام سے محروم کر رہے ہیں اور آپ کی لخت جگر نور نظر کے لیے غلام کی عدم موجودگی سخت مشقت کا باعث بن رہی تھی۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام یا خدمت گار کو ترجیح نہ دی بلکہ اپنی عزیزاز جاں بیٹی کے لیے ذکر الٰہی کو ہر بات پر مقدم جانا۔پھر بھی کتنے ہی کم لوگ
[1] صحیح بخاری،کتاب فرض الخمس،باب الدلیل علی ان الخمس…،حدیث: ۳۱۱۳۔