کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 44
دونوں آیات کا یہ نتیجہ نکلے گا۔البتہ آپ نے صبح شام کے اذکار اور بستر پر سوتے وقت کے جو وظائف و عملیات امت کو بتلائے،ان سے مندرجہ بالا مقصد بہت ہی آسانی سے پورا ہوسکتا ہے۔جب ایسا ہونا ممکن ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم مسنون اورادو وظائف سے منہ موڑے ہوئے ہیں یا کم از کم انہیں لائق اعتناء نہیں سمجھ رہے؟ بات کو ایک اور زاویے سے سمجھئے! چلیے ! تسلیم کر لیتے ہیں کہ ایک شخص کوئی غیر مسنون عمل کرتا ہے اور جو اس کا مطلوب ہوتا ہے،وہ حاصل کرلیتا ہے۔دوسری طرف ایک اور شخص اسی کام کے لیے مسنون عمل کرتا ہے اور گوہر مقصود پالیتا ہے۔اب دونوں میں فرق کیا ہے؟ دونوں ایک ہی نتیجے پر پہنچے ہیں۔مگر دونوں کا راستہ کس قدر مختلف ہے۔ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنا کر منزل پر پہنچا ہے اور دوسرا سنت سے منہ موڑ کر کسی سنے سنائے عمل کو اپنا کر منزل پر پہنچا ہے۔ایک کے نامہ اعمال میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا لکھا گیا اور دوسرے کے نامہ اعمال میں سنت سے اعراض۔ اس لیے کیا ضرورت ہے خود کو آزمائش کی اس بھٹی میں ڈالنے کی؟ ایک لمحے کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہ مجرب عملیات اپنے اندر اثر رکھتے ہیں،لیکن ایسے مجرب عملیات جو آپ کو مسنون وظائف سے دُور کر دیں،ان پر عمل کس اعتبار سے قابل تحسین ہوگا؟ ۷۔گناہوں کی معافی،شیطان سے دوری اور بہترین افراد کی رفاقت کی دعا: حضرت ابو الازہر الانماری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بستر پر رات کے وقت محو استراحت ہوتے تو فرماتے: ((بِسْمِ اللّٰہِ وَضَعْتُ جَنْبِيْ۔أَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ذَنْبِيْ وَاخْسَأْ شَیْطَانِيْ وَفُکَّ رِہَانِيْ وَاجْعَلْنِيْ فِی النَّدِيِّ الْأَعْلٰی)) ’’میں نے اللہ تعالیٰ کے نام سے اپنا پہلو رکھا۔الٰہی! میرے گناہ معاف کر