کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 409
پڑھی جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو یاد کرائی۔[1] لیکن جب مسنون اعمال سے گریز کی راہ اختیار کی جائے تو پھر جس کے جی میں جو آئے وہ کرے۔پھر تو دین نبوی تعلیمات کا نام نہ رہا۔(نعوذ باللّٰہ من ذلک) تعویذات و عملیات کی کتب میں آپ کو ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی،جن میں مسنون اوراد و وظائف کی بجائے خدا جانے کس کے گھڑے ہوئے وظائف کی طرف لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے۔مثلاً ’’استخارہ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب میں درج ہے کہ:
[1] استخارہ کی نبوی دعا درج ذیل ہے:
(( اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ خَیْرٌا لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْلِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ))
’’ اے میر ے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر و بھلائی کا طالب ہوں،اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں،اور تیرے فضل عظیم کا طلب گار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھ میں کوئی قدرت نہیں،اور (ہر قسم کا) علم تجھ کو ہی ہے،اور میں کچھ نہیں جانتا،اور تو تمام پوشیدہ باتوں سے باخبر ہے۔اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین و دنیا اور انجام کار کے اعتبار سے بہتر ہے،یا میرے لیے وقتی طور پر یا انجام کے اعتبار سے یہ(خیر ہے) تو اسے میرے مقدر میں کر،او ر اس کا حصول میرے لیے آسان کر،اور پھر اس میں مجھے برکت عطاکر،اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین ودنیا اور انجام کار کے اعتبار سے برا ہے،یا پھر میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور میرے انجام کے اعتبار سے براہے،تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے بھی اس سے دور کر دے،پھر میرے لیے خیر مقدر فرمادے جہاں بھی وہ ہو،اور اس سے مجھے اطمینان قلب بھی نصیب فرما۔‘‘
صحیح بخاری،کتاب الدعوات،باب الدعاء عند الاستخارۃ،حدیث: ۶۳۸۲۔
اب خدا جانے اس میں کیا مصلحت،حکمت یا معرفت اور صحیح ترین الفاظ میں ’’جہالت‘‘ ہے کہ ان ’’ادب شناس‘‘ لوگوں نے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی دعا کے متبادل خود ساختہ استخارے تراش لیے۔اللہ رب العزت کی پناہ اس بے ادبی سے۔